کیا پاکستان میں رنگین انقلاب کے لیے اسٹیج تیار کیا جارہا ہے

282

حصہ دوم

سوالات یہ تھے کہ پاکستان میں طلبہ یونینوں کی بحالی سے عالمی کھلاڑیوں کو کیا دلچسپی ہے۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ کوئی سی بھی پارٹی ہو، اس کے پاس اس وقت اسٹریٹ پاور نام کی کوئی چیز بچی نہیں ہے۔ عمران خان کے اسلام آباد میں طویل دھرنے کے دوران ہر شخص نے ملاحظہ کیا کہ ہر طرح کی مدد و تعاون اور بھرپور وسائل کی فراہمی کے باوجود کتنے افراد اُس دھرنے میں موجود تھے۔ بعض اوقات تو اُن افراد کی تعداد چند درجن تک پہنچ جاتی تھی۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی جلسہ کرے تو اس کے انتظامات کے لیے بھی کارکن دستیاب نہیں ہوتے اور اب سارے ہی انتظامات آؤٹ سورس کرنے پڑتے ہیں۔ صرف جمعیت علماء اسلام ایک ایسی پارٹی بچی ہے جس کے پاس کسی حد تک اسٹریٹ پاور ہے مگر یہ ساری کی ساری مدارس کی مرہون منت ہے۔ مدارس کے طلبہ کے علاوہ جمعیت علماء اسلام کی بھی وہی پوزیشن ہے جو دیگر مذہبی و سیاسی جماعتوں کی ہے۔

پاکستان میں اس صورتحال کو دیکھنے کے بعد یہ بھی دیکھیں کہ ملک میں عوام شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی ایجنٹ ٹیم کے ذریعے ملک میں مصنوعی مہنگائی کا طوفان برپا کردیا گیا ہے۔ معاشی اتار چڑھاؤ اس تسلسل سے جاری ہے کہ عوام کے گھریلو بجٹ کی کشتی کے اس گرداب سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی حاضر سروس ٹیم نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے آتے ہی دو بنیادی کام کیے۔ سب سے پہلا کام روپے کی بے قدری تھی۔ روپے کی ڈالر کے مقابلے میں بے قدری نے مہنگائی میں کئی گنا اضافہ کردیا۔ اس کی وجہ سے گیس، بجلی اور پٹرول اور درآمدی اشیاء کی قیمتوں میں خودکار طریقے سے اضافہ ہوا جس سے صنعت و زراعت کی پیداواری لاگت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ مرے پر مارے شاہ مدار کے مصداق آئی ایم ایف کے حاضر سروس ملازم رضا باقر جنہیں پاکستان کے مرکزی بینک کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے، نے دوسرا کام یہ کیا کہ شرح سود میں اضافہ کرنا شروع کردیا اور اسے تقریباً دگنا کرکے 13.25 فی صد پر لے آئے۔ روپے کی تقریباً 50فی صد بے قدری اور شرح سود میں دگنا اضافے نے ملک کی صنعت کے لیے دو دھاری تلوار کا کام کیا اور صنعتی یونٹ دھڑا دھڑ بند ہونے لگے اور ہر طرف بے روزگاری پھیل گئی۔

اب عوام ہر طرح کی پریشانی کا شکار ہیں۔ سرکاری اسپتالوں سے مفت طبی سہولتیں واپس لے لی گئی ہیں، سرکاری شعبے میں مفت تعلیمی سہولتیں بھی موجود نہیں ہیں۔ سرکاری یونیورسٹیوں اور اسپتالوں کو فنڈ فراہم نہیں کیے جارہے ہیں جس کی وجہ سے اب یہ ادارے طبعی موت کی طرف گامزن ہیں۔ عوام کی قوت خرید ختم کردی گئی ہے جس کی وجہ سے ان کی بچت ختم ہوگئی ہے اور اب روز لاکھوں افراد خط غربت کو عبور کرجاتے ہیں۔ بجلی و گیس کی مصنوعی لوڈ شیڈنگ جاری ہے، اس پر جعلی بلوں نے عوام کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے جس کے خلاف کہیں پر کوئی شنوائی نہیں ہے۔ سارے ہی سرکاری ادارے عوام کو کوئی سہولت دینے کے بجائے بیجا تنگ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اس سلسلے میں نادرا کی مثال لی جاسکتی ہے کہ جہاں پر شہری اپنی شناختی دستاویزات کی تصدیق کروانے جائیں تو ان کے شناختی کارڈ بلاک کردیے جاتے ہیں۔ والدین کے شناختی کارڈ کی تجدید کردی گئی ہے تو مضحکہ خیزی کی حد تک بچوں کی شناختی دستاویزات نہیں بنائی جاتیں۔ سابق سینیٹر حمداللہ کی شہریت کی منسوخی اس کی بہترین مثال ہے۔
سندھ اب کھنڈر بن چکا ہے یہاں کے شہر کچرے تلے دب چکے ہیں تو ہر جگہ سیوریج کا پانی بہہ رہا ہے اور اس کے سبب سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ دیگر صوبوں کے اپنے مسائل ہیں۔کراچی میں گرین لائن بس منصوبہ اور پشاور کے بی آرٹی جیسے پروجیکٹوں کے سبب لوگ اب نفسیاتی مسائل کا شکار ہونے لگے ہیں۔ عدالتیں اب انصاف فراہم کرنے کے بجائے بااثر افراد کو ہر جرم پر بری کررہی ہیں اور انہیں کلین چٹ دی جارہی ہے۔ پاکستان میں طبقاتی منافرت نام کو نہیں تھی مگر اب اسے رفتہ رفتہ پیدا کردیا گیا ہے۔ خوشحال اور بدحال، وکیل اور ڈاکٹر، پولیس اور عوام، سویلین اور فوج جیسی لکیریں پیدا کردی گئی ہیں۔ اداروں کے خلاف عوام میں زبردست اشتعال پایا جاتا ہے۔ اس سب کا مطلب یہ ہے کہ عوام میں بے چینی موجود ہے، وہ اپنے مسائل کا مداوا چاہتے ہیں۔ ان کے سامنے ان کے حقوق کے دشمن پیدا کردیے گئے ہیں، ان کے سامنے اہداف پیدا کردیے گئے ہیں جو ان کے غیظ و غضب کا نشانہ بن سکتے ہیں مگر کوئی ایسی قوت نہیں ہے جو عوام کو ان اہداف کے خلاف منظم کرسکے۔ اس وقت سارے ہی سیاسی رہنما وہ ہیں جو سیاست کی ٹیسٹ ٹیوب بے بی ہیں۔

انہیں جس طرح سے پروان چڑھایا گیا ہے، وہ بالکل اسی طرح برسرعمل ہیں۔ ان سار ے رہنماؤں کے خلوت و جلوت کی ایک ایک حرکت کے وڈیو کلپ موجود ہیں جس کے ذریعے ان کی ایسی کردار کشی کی گئی ہے کہ اب عوام انہیں کسی طور قابل اعتماد نہیں سمجھتے۔

اس صورتحال میں اگر ملک میں کوئی افراتفری پھیلانا چاہے تو عوامی سطح پر ممکن نہیں ہے۔ کسی ٹارگٹ کے خلاف تو کارروائی ممکن ہے مگر لاکھوں افراد کے مظاہرے ممکن نہیں ہیں۔ ہانگ کانگ، عراق، تیونس، الجزائر اور فرانس جیسے مظاہرے موجودہ حالات میں پاکستان میں ممکن نہیں ہیں۔ ایسے مظاہروں کے لیے طلبہ بہترین ذریعہ ہیں۔ پاکستان میں افراتفری پھیلانا کیوں مقصود ہے اور اس کے لیے طلبہ ہی کو کیوں منظم کیا جارہا ہے۔ ان اہم سوالات پر گفتگو آئندہ کالم میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔