ایک صفحے پر ہونے کی تکرار

602

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ فوج اور وزیر اعظم کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ اختلافات کی خبروں کو قیاس آرائیاں قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ وزیر اعظم اور فوج کے سربراہ دونوں ایک صفحے پر ہیں ۔ دوسری جانب عمران خان کا بھی کچھ ایسا ہی کہنا ہے ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ بار بار فوج اور وزیراعظم کو اس بات کی وضاحت کرنا پڑ رہی ہے کہ سیاست اور طاقت دونوں ایک ہی صفحے پر ہیں ۔ حالات بتارہے ہیں کہ جیسا کہا جارہا ہے، ویسا ہے نہیں ۔ پلوں کے نیچے سے پانی بہت بہ چکا ہے ، اب حالات تبدیل ہورہے ہیں اور سلیکٹر اپنی سلیکشن سے مطمئن نہیں ہیں ۔ عمران خان نیازی جن دعووں کے ساتھ برسراقتدار آئے تھے ، ایک ایک کرکے وہ سب پر یو ٹرن لے چکے ہیں ۔ نہ تو ملک سے کرپشن ختم کی جاسکی اور نہ ہی کرپٹ افراد سے لوٹی گئی رقم کی ایک کوڑی بھی وصول کی جاسکی ۔ سارے کرپٹ افراد یا تو پی ٹی آئی میں شامل ہو کر گنگا نہا گئے یا پھر اب انہوں نے طاقت کے دیگر ستونوں سے رجوع کرلیا ہے اور اب ایک ایک کرکے واشنگ مشین سے صاف ستھرے ہو کر نکل رہے ہیں کہ ان کے خلاف موثر ثبوت و شواہد ہی پیش نہیں کیے گئے ہیں۔ ثبوت و شواہد کی صورتحال یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس خود اسپتال میں داخل زیر حراست قیدی کے کمرے سے شراب کی بوتل برآمد کریں اور شراب کی یہ بوتل دیکھتے ہی دیکھتے شہد اور زیتون کے تیل میں تبدیل ہوجائے اور وہ صرف مسکرا کر رہ جائیں ۔ اسی طرح ان کے چھاپے کے دوران اسپتال سے زیرحراست قیدی غائب ہو اور انہیں بتایا جائے کہ وہ ضروری ٹیسٹ کے لیے گیا ہوا ہے اور وہ پھر سے تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسکرا دیں ۔ عمران خان نیازی جب برسراقتدار آئے تھے تو انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ پہلی فرصت میں سرکاری اداروں میں جاری کرپشن کو روک دیں گے ۔ یہ کرپشن تو نہیں رک سکی مگر اس کے نرخوں میں کئی گنا اضافہ ضرور ہوگیا ۔ اسی طرح عمران خان کے برسراقتدار آنے کے بعد سے مہنگائی کا جن جس طرح سے بے قابو ہوا ہے اور اس نے ہر طبقہ زندگی کو جس طرح سے متاثر کیا ہے ، اس نے حقیقت میں عوام کی چیخیں نکال دی ہیں ۔ ملک میں مہنگائی کی وجہ بیرونی عوامل کہیں سے نہیں ہیں بلکہ یہ سب کچھ کیا دھرا عمران خان نیازی کی ٹیم کا ہے جو محض عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے دیے املا پر کام کررہی ہے ۔ مزید سہولتیں تو کیا دی جاتیں ، پہلے سے مہیا بچی کھچی سہولتیں بھی واپس لے لی گئی ہیں ۔ اب سرکاری اسپتال میں مفت علاج ختم کردیا گیا ہے ۔ اسی طرح تعلیم کے شعبے کی بھی بتدریج نجکاری جاری ہے ۔ عالمی بینک کے احکامات پر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی نجکاری کا عمل بھی شروع کردیا گیا ہے ۔ کچھ ہی عرصے کی بات ہے کہ کراچی کے شہری بجلی کی طرح پانی کے لیے بھی سسک رہے ہوں گے اور بھاری بلوں کی ادائیگی کے لیے مجبور ہوں گے ۔ امن و امان کی صورتحال ہر جگہ ہی خراب ہے ۔عمران خان نیازی کی داخلہ پالیسی کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی بھی ناقابل رشک رہی ۔ عمران خان کے دور ہی میں بھارت کو مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کی ہمت ہوئی۔ پاکستان کی جانب سے موثر اور مسکت جواب نہ ملنے پر بھارت کی پیش قدمی جاری ہے۔ عمران خان نیازی کی جانب سے سلیکٹروں کی کٹھ پتلی بنے رہنے کے امیج سے سارا ملبہ طاقت کے منبع پرگرا ہے اور عوام عمران خان سے زیادہ ان کے سلیکٹروں کو ان سب کا ذمہ دار سمجھتے ہیں ۔ رازداں ہونے کے دعوے دار حلقے کہہ رہے ہیں کہ دسمبر سے قبل ہی پاکستان میں بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی ۔ ان تبدیلیوں کے ذریعے طاقت کے ستون عوام میں اپنا امیج بہتر بنانے کی کوشش کریں گے کہ یہ سب کچھ کیا دھرا عمران خان کا تھا جس کے سبب ان کے اختیارات محدود کردیے گئے ہیں ۔ اس قضیے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس پورے کھیل میں عوام کہیں پر موجود نہیں ہیں ۔ عمران خان کو سلیکٹ کرتے وقت بھی عوامی رائے کا احترام نہیں کیا گیا اور اگر اب انہیں رخصت کیا جاتا ہے تو بھی اس میں عوام کو اعتماد میں نہیں لیا جائے گا ۔ بس چند حلقے ہیں جو پاکستان کی بہتری کے نام پر جب چاہیں اور جو چاہیں کر گزرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلسل مشکلات میں گھرا رہا ہے ۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد اب سقوط کشمیر کا سانحہ بھی رونما ہوگیا مگر عوامی جذبات کے برخلاف اس پر کوئی موثر جواب نہیں دیا گیا جس سے بھارت کی کشمیر کو ہڑپ کرنے کی خواہش کی حوصلہ شکنی ہوتی ۔ پاکستان بس نام کا چودھری بن کر خوش ہے کہ افغانستان میںامریکا اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات ہم کرائیں گے ، سعودی عرب اور ایران کے مابین اختلافات ہم ختم کرائیں گے مگر ایک مرتبہ بھی ان فریقین ہی سے کشمیر پر حمایت حاصل نہیں کرسکا ۔ بہتر ہوگا کہ اقتدار کے لیے میوزیکل چیئر کا کھیل کم از کم کچھ عرصے کے لیے روک دیا جائے ۔ یہ حقیقت ہے کہ عمران خان نیازی کے دور حکومت میں سلیکٹروں کی رائے کو اولیت حاصل رہی ہے تو پھر وہی سلیکٹر محب وطن داخلہ اور خارجہ پالیسی کو مرتب کریں اور اہل و محب وطن افراد کو اہم جگہوں پر تعینات کریں تاکہ پاکستان پر چھائے ابتلا و آزمائش کے بادل چھٹ سکیں ۔