انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت جسٹس فائزاہلیہ کے اثاثے ظاہر کرنے کے پابند نہیں‘ وکیل

139

اسلام آباد(صباح نیوز)عدالت عظمیٰ میں صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ و دیگر فریقین کی درخواستوں کی سماعت کے دوران وکیل بابر ستار نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ بیرون ملک جائدادیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نہیں بلکہ ان کی اہلیہ کی ملکیت ہیںاورانکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت جسٹس قاضی ان اثاثوں کو ظاہر کرنے کے پابند نہیں،ایف بی آرمیں جمع کیے گئے ٹیکس ریٹرنز کی تفصیلات کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے وزیر اعظم عمران خان کے برابر ٹیکس دیا ہے،اگر وزیر اعظم مالی طور پر خود مختار ہیں توجسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کیسے نہیں؟۔جسٹس مقبول باقر نے فاضل وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہنا یہ چاہتے ہو کہ اگر آمدن پر ٹیکس دے کر وزیر اعظم خود مختار ہے تو درخواست گزار کی اہلیہ نے بھی اپنی آمدن پر ٹیکس دیا ہے اور وہ مالی طور پر خود مختار خاتون ہے ۔جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ درخواست گزار پر الزام اثاثے چھپانے اور منی لانڈرنگ کا ہے کہ بیرون ملک جائدادوں کی خریداری کے لیے یہاں سے رقم گئیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانو ن کے مطابق اگر درخواست گزار کے ویلتھ اسٹیٹمنٹ پر کوئی اعتراض تھا تو ایف بی آر انہیں نوٹس بھیج دیتا ،جب کمشنر انکم ٹیکس نے کوئی نوٹس ہی نہیں بھیجا تو بات ہی ختم ہوگئی ۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں وہی ظاہر کیا جائے گا جو ملکیت میں ہو جب کہ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ قانون کے مطابق ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں زیادہ سے زیادہ معلومات ایف بی آر کو فراہم کرنا ہوتا ہے،جس پر وکیل بابر ستار نے موقف اپنایا کہ ایف بی آر کو وہی معلومات دیے جاتے ہیں جو ذاتی ہو ،کسی اور مالی طور پر خود مختیار شخص کی معلومات فراہم نہیں کی جاتیں، درخواست گزار نے وہی اثاثے ظاہر کرنے تھے جو ان کی آمدن سے بنے،جب بیرون ملک جائدادوں کا درخواست گزار کی آمدن سے تعلق نہیں تو وہ کیوں ظاہر کرے۔بابر ستار نے دلائل کے دوران چیئر مین ایف بی آر شبر زیدی کے 3 سالہ پرانے آرٹیکل کا حوالہ دیا اور کہا کہ اس آرٹیکل میں انہوں نے کہا ہے کہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ کا انکم ٹیکس سے کوئی تعلق نہیں بنتا ،انکم ٹیکس کا تعلق صرف آمدن سے ہے،آمدن کا تخمینہ لگا کر ٹیکس عائد کیا جاتا ہے جب کہ بینچ کے سربراہ نے مسلسل 4روز تک صرف انکم ٹیکس سے متعلق قانونی نکات پر دلائل دینے پر برہمی کا اظہار بھی کیا اور کہا کہ ہمیں اس سے اتفاق نہیں،ہم انکم ٹیکس کو نہیں دیکھ رہے بلکہ فنڈز کے ذرائع کو دیکھ رہے ہیں،ہمارے سامنے بنیادی سوال یہ ہے کہ فنڈز کہاں سے آئے۔جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ دولت ،آمدن سے آتی ہے اور آمدن کو ظاہر کرنا لازمی ہے، اگر کوئی دولت تو ظاہر کرے لیکن آمدن نہیں توکیا کیا جائے،پتا تو چلے اہلخانہ کے پاس دولت کہاں سے آئی؟ ۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اہلیہ اور بچوں کے اثاثے اسی فارم میں ظاہر کیے جاتے ہیں جس میں اپنے اثاثے ظاہر کرنے ہوتے ہیں ،جس پر وکیل بابر ستار نے کہا کہ قانون کے تحت درخواست گزار صرف اپنی آمدن کی تفصیلات بتانے کا پابند ہے،درخواست گزار کی اہلیہ نے 2010ء سے 12ء تک کے ٹیکس ریٹرنز جمع کیے ہیں اور ایف بی آر کی دستاویزات کے مطابق انہوں نے 2010ء میں ایک لاکھ3 ہزار سے زائد ،2011ء میں ایک لاکھ 43ہزار سے زائد اور 12ء میں ایک لاکھ 47ہزار سے زائد کا ٹیکس دیا جب کہ وزیر اعظم عمران خان نے ایک اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2017میں ایک لاکھ تین ہزار کا ٹیکس دیا،اگر وزیر اعظم اس ٹیکس کے ساتھ مالی طور پر خود مختیار ہیں تو درخواست گزار کی اہلیہ اپنی آمدن پر اتنا ٹیکس دے کر کیسے خودمختیار نہیں؟۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ کیا آمدن کا دوبارہ تخمینہ لگایا جاسکتا ہے اورانکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت اگر کوئی اثاثہ ظاہر نہ کیا جائے اور بعد میں معلوم ہوجائے تو اس کی سزا کیا ہے، جس کے جواب میں وکیل نے بتایا کہ 5 سال بعد ریٹرنز کا جائزہ نہیں لیا جاسکتا لیکن ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا جاتا ہے،جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ پھر تو 5سال اثاثے چھپائو اور پھر ایک لاکھ جرمانہ دے کر مطمئن ہوجائو ۔جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل نے کہا کہ دوبارہ تخمینے کے لیے کمشنر پر پابندی ہے لیکن جرمانہ عائد کرنے کے لیے کوئی پابندی نہیں ، اثاثوں کے دوبارہ تخمینے کے لیے کمشنر کی جانب سے نوٹس جاری کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔بابر ستار نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بیوی کے خود کفیل ہونے سے متعلق وفاق نے خود وضاحت کردی جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ اور انکم ٹیکس ریٹرن کی تفصیل خود وفاق نے دی۔جسٹس مقبول باقر کے استفسار پر بابر ستار نے کہا کہ یہ حقیقت ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے وزیر اعظم عمران خان سے زیادہ ٹیکس دیا۔عدالت کا وقت ختم ہونے پر کیس کی سماعت آج دوپہر ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔