فتنوں سے بچائو

164

مفتی یوسف کشمیری

رسول اللہؐ اپنی امت کو باخبر رکھنے کے لیے صحابہ کرام کو فتنوں سے آگاہ فرماتے تھے۔ ہم اپنا جائزہ لیں کہ اس پرفتن دور میں ہمارا کیا معاملہ ہے؟ کیا ہم فتنوں سے تحفظ اور بچائو کے لیے کچھ کر رہے ہیں؟ موجودہ دور میں سب سے بڑا فتنہ ذرائع ابلاغ پر پروپیگنڈے کی جنگ ہے۔ ایک وقت تھا کہ میڈیا صرف حکومتوں یا اداروں کے کنٹرول میں ہوا کرتا تھا، لیکن اس وقت ذرائع ابلاغ ہر شخص کی دسترس میں ہے، خواہ وہ پڑھا لکھا ہے یا ان پڑھ۔ چھوٹا ہے یا بڑا۔ امیر ہے یا غریب۔ عورت ہے یا مرد۔ وہ شہر میں بیٹھا ہے یا صحرا میں یا پھر پہاڑوں کی چوٹیوں پر بیٹھا ہوا ہے۔ ہر شخص آسانی کے ساتھ پوری دنیا کی معلومات سے آگاہی حاصل کر سکتا ہے اور اپنے اردگرد کی خبریں پوری دنیا تک پہنچا سکتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ و سوشل میڈیا، یہ تمام ابلاغ کے ذرائع ہیں۔ اگر اس کا مثبت پہلو ہے تو ساتھ میں منفی بھی ہے۔ یعنی تعمیر اور تخریب دونوں پہلو اس میں سموئے ہوئے ہیں۔ جن میں سے تخریب کاری کی دو قسمیں زیادہ خطر ناک ہیں: ایک فحاشی و عریانی کو عام کرنا اور دوسرا جھوٹ، شکوک و شبہات کو پروان چڑھانا۔ یہ دو مرض ہیں، جن کا قرآنِ حکیم میں بھی ذکر ہے اور احادیث میں بھی۔
فحاشی اور عریانی کا سدباب ممکن ہے۔ لیکن دوسرا مرض جس میں شکوک و شبہات کے ذریعے عقائد کا بگاڑ، ذہنوں کی تبدیلی، حقائق کو مسخ کر دینا شامل ہیں، یہ ایسا مرض ہے جس کا علاج بہت مشکل ہے۔ افواہ پھیلانا اور پروپیگنڈہ کرنا کوئی جدید طریقہ نہیں ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیث مبارکہ میں اس کا تذکرہ موجود ہے۔ جتنے پیغمبرؑ اس دنیا میں آئے، ان کے پیروکار ذرائع ابلاغ کا استعمال کرتے تھے اور انبیا کے مخالفین بھی استعمال کرتے تھے۔ مشرکین مکہ نے بھی ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا اور مدینہ میں بھی کئی لوگوں نے استعمال کیا۔ جن میں سے تین گروہوں کا ذکر قرآن حکیم میں موجود ہے۔ سورۃ النساء میں اللہ فرماتے ہیں: ’’اے میرے محبوب پیغمبر اور مسلمانو! اگر یہ منافقین باز نہ آئے، دوسرا وہ گروہ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور تیسرا گروہ مدینے میں افواہیں اڑانے والے، پروپیگنڈا کرنے والے، اگر یہ تینوں گروہ اپنی شرارتوں، سازشوں یا تخریبی کارروائیوں سے باز نہ آئے، تو ہم آپ کو ان پر مسلط کر دیں گے، پھر یہ بہت کم ہی آپ کے ارد گرد رہیں گے۔ یہ تینوں گروہ ملعون ہیں، جہاں یہ ملیں ان کو پکڑ لیا جائے، ان کا راستہ روکا جائے، ان کی ناکہ بندی کی جائے اور ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں۔ یہی رب کا طریقہ رہا ہے، اللہ کا دستور تبدیل نہیں ہوا کرتا۔ یہ ہمیشہ انسانیت کی فلاح کے لیے برقرار رہتا ہے۔ (الاحزاب: 60)
اللہ رب العزت نے فتنوں سے بچنے کے لیے قانون اور قائدہ بیان کر دیا ہے۔ فرمایا: ’’اے مسلمانو! جس چیز کا آپ کو علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑو‘‘۔ (الاسراء:36) اس پر عمل نہ کرو، اس کو آگے نہ پھیلائو۔ فرمایا: ’’کچھ ایسے لوگ بھی معاشرے میں پائے جاتے ہیں، کچے کانوں والے، کچے دماغ والے، احتیاط کا دامن نہ تھامنے والے یا سازشوں کا شکار ہونے والے، ان کے پاس کوئی امن کی خبر آتی ہے یا خوف کی، فتح کی آتی ہے یا شکست کی، کامیابی کی خبر آتی ہے یا ناکامی کی، فوراً اس کی تشہیر شروع کر دیتے ہیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ کسی ذمے دار فرد یا اہل علم کے پاس وہ خبر لے کر جائیں اور وہ اپنے علم کی بنیاد پر اس کا نتیجہ نکالیں‘‘۔ (النساء: 83)
افواہ اور پروپیگنڈے کا نقصان کیا ہے؟ اس تناظر میں رسول اللہؐ کی سیرت طیبہ کا ایک واقعہ قابل غور ہے:غزوہ احد میں اللہ نے مسلمانوں کو کامیابی دی اور مشرکینِ مکہ بھاگ نکلے۔ چنانچہ مسلمان مالِ غنیمت جمع کرنے لگے۔ اللہ کے رسولؐ نے پچاس تیر انداز پہاڑی پر تعینات کیے تھے اور انہیں مورچہ نہ چھوڑنے کی تاکید کی تھی۔ جب مسلمانوں کو فتح ملی تو بعض تیر انداز بھی نیچے اتر آئے۔ جس پر خالد بن ولید نے، جو اس وقت دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے، موقع پر عقبی حصے سے حملہ کردیا، اس طرح جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دوران یہ خبر پھیل گئی کہ اللہ کے رسولؐ شہید ہوگئے۔ اندازہ لگائیں کہ افواہ یا پروپیگنڈے کا کتنا شدید نقصان ہوتا ہے۔ یہ کافروں اور منافقین کا مضبوط ترین ہتھیار ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے حوصلے پست ہوگئے، ہمت جواب دے گئی۔ مسلمان کہنے لگے کہ جب اللہ کے رسولؐ دنیا میں نہیں رہے، تو ہمارا بھی دنیا میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہ آنکھیں بند کر کے لڑنے لگ گئے۔ اس موقع پر تین گروہ بن گئے۔ ایک گروہ لڑنے لگ گیا۔ ایک بے بس ہوکر بیٹھ گیا اور تیسرے نے اِدھر اُدھر کی راہ لی۔ یہ بہت خوف ناک پروپیگنڈا تھا کہ اللہ کے نبیؐ شہید ہوگئے۔ جس کا احد میں مسلمانوں کو بے حد نقصان ہوا۔ ایسے موقع پر اللہ رب العزت نے ہمیں سازشوں، افواہوں اور پروپیگنڈے سے دور رہنے کا یہ طریقہ بتلایا ہے کہ آپ خبر کا نتیجہ خود نہ نکالیں بلکہ اہل علم کے سپرد کردیں۔