افکار سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ

346

اب نبی کی آخر ضرورت کیا ہے ؟
قابل غور بات یہ ہے کہ نبوت کوئی ایسی صفت نہیں ہے جو ہر اْس شخص میں پیدا ہو جایا کرے جس نے عبادت اور عملِ صالح میں ترقی کر کے اپنے آپ کو اس کا اہل بنا لیا ہو۔ نہ یہ کوئی ایسا انعام ہے جو کچھ خدمات کے صلے میں عطا کیا جاتا ہو۔ بلکہ یہ ایک منصب ہے جس پر ایک خاص ضرورت کی خاطر اللہ تعالیٰ کسی شخص کو مقرر کرتا ہے۔ وہ ضرورت جب داعی ہوتی ہے تو ایک نبی اس کے لیے مامور کیا جاتا ہے، اور جب ضرورت نہیں رہتی تو خواہ مخواہ انبیا پر انبیا نہیں بھیجے جاتے۔
قرآن مجید سے جب ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نبی کے تقرر کی ضرورت کن کن حالات میں پیش آئی ہے تو پتا چلتا ہے کہ صرف چار حالتیں ہیں جن میں انبیا مبعوث ہوئے ہیں :
اوّل یہ کہ کسی خاص قوم میں نبی بھیجنے کی ضرورت اس لیے کہ کہ اس میں پہلے کبھی کوئی نبی نہ آیا تھا اور کسی دوسری قوم میں آئے ہوئے نبی کا پیغام بھی اس تک نہ پہنچ سکتا تھا۔
دوّم یہ کہ نبی بھیجنے کی ضرورت اس وجہ سے ہو کہ پہلے گزرے ہوئے نبی کی تعلیم بھْلا دی گئی ہو، یا اس میں تحریف ہو گئی ہو، اور اس کے نقش قدم کی پیروی کرنا ممکن نہ رہا ہو۔
سوم یہ کہ پہلے گزرے ہوئے نبی کے ذریعے مکمل تعلیم و ہدایت لوگوں کو نہ ملی ہو اور تکمیل دین کے لیے مزید انبیا کی ضرورت ہو۔
چہارم یہ ایک نبی کے ساتھ اس کی مدد کے لیے ایک اور نبی کی حاجت ہو۔
اب یہ ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی ضرورت بھی نبیؐ کے بعد باقی نہیں رہی ہے۔
قرآن خود کہہ رہا ہے کہ نبیؐ کو تمام دْنیا کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا گیا ہے اور دنیا کی تمدّنی تاریخ بتا رہی ہے کہ آپؐ کی بعثت کے وقت سے مسلسل ایسے حالات موجود رہے ہیں کہ آپؐ کی دعوت سب قوموں کو پہنچ سکتی تھی اور ہر وقت پہنچ سکتی ہے۔ اس کے بعد الگ الگ قوموں میں انبیا آنے کی کوئی حاجت باقی نہیں رہتی۔
قرآن اس پر بھی گواہ ہے اور اس کے ساتھ حدیث و سیرت کا پورا ذخیرہ اس امر کی شہادت دے رہا کہ نبیؐ کی لائی ہوئی تعلیم بالکل اپنی صحیح صورت میں محفوظ ہے۔ اس میں مسخ و تحریف کا کوئی عمل نہیں ہوا ہے۔ جو کتاب آپ لائے تھے اس میں ایک لفظ بھی کمی و بیشی آج تک نہیں ہوئی، نہ قیامت تک ہو سکتی ہے۔ جو ہدایت آپؐ نے اپنے قول و عمل سے دی اس کے تمام آثار آج بھی اس طرح ہمیں مل جاتے ہیں کہ گویا ہم آپؐ کے زمانے میں موجود ہیں۔ اس لیے دوسری ضرورت بھی ختم ہوگئی۔
پھر قرآن مجید یہ بات بھی صاف صاف کہتا ہے کہ نبیؐ کے ذریعے سے دین کی تکمیل کر دی گئی۔ لہٰذا تکمیل دین کے لیے بھی اب کوئی نبی درکار نہیں رہا۔
اب رہ جاتی ہے چوتھی ضرورت، تو اگر اس کے لیے کوئی نبی درکار ہوتا تو وہ نبیؐ کے زمانے میں آپؐ کے ساتھ مقرر کیا جاتا۔ ظاہر ہے کہ جب وہ مقرر نہیں کیا گیا تو یہ بھی ساقط ہوگئی۔
اب ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ پانچویں وجہ کون سی ہے جس کے لیے آپؐ کے بعد ایک نبی کی ضرورت ہو؟ اگر کوئی کہے کہ قوم بگڑ گئی ہے اس لیے اصلاح کی خاطر ایک نبی کی ضرورت ہے، تو ہم اس سے پوچھیں گے کہ محض اصلاح کے لیے نبی دنیا میں کب آیا ہے کہ آج صرف اس کام کے لیے وہ آئے؟ نبی تو اس لیے مقرر ہوتا ہے کہ اس پر وحی کی جائے، اور وحی کی ضرورت یا تو کوئی نیا پیغام دینے کے لیے ہوتی ہے، یا پچھلے پیغام کی تکمیل کرنے کے لیے، یا اس کو تحریفات سے پاک کرنے کے لیے۔ قرآن اور سنتِ محمدؐ کے محفوظ ہو جانے اور دین کے مکمل ہو جانے کے بعد جب وحی کی سب ممکن ضرورتیں ختم ہو چکی ہیں، تو اب اصلاح کے لیے صرف مصلحین کی حاجت باقی ہے نہ کہ انبیا کی۔ (تفہیم القرآن، سورہ الاحزاب)