ہمارے سیاسی محرکات: چیلنجز اور اقدامات

266

حکومت کی تبدیلی کے لیے دھرنے کی روایت عمران خان نے 2014 میں ڈالی تھی جس کا اب خود انہیں سامنا ہے کیونکہ اب وہی ’حکومت کی تبدیلی‘ کی لہر کہیں زیادہ شدت کے ساتھ ان کے اقتدار کے درواز ے تک پہنچ چکی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں دائیں بازوکی مذہبی جماعتیں جوگزشتہ بہتر سال سے سیاسی طور پر بے وقعت رہی ہیں‘ اچانک قومی سیاسی افق پر مرکزی حیثیت اختیار کر چکی ہیں اور اب تقریباً پانچ لاکھ عوام کی حمایت کے ساتھ اقتدار کے دروازے پر دستک دے رہی ہیں۔ انہیں ملک کی تمام اہم سیاسی قیادت کی بھی حمایت حاصل ہے جو متحد ہو کر اعلان کر رہے ہیں کہ:
٭ شہباز شریف: ’’عمران فارغ العقل ہیں اور ملک کے لیے خطرہ ہیں‘‘۔
٭ بلاول زرداری: ’’سیلکٹڈ حکومت کے جانے کا وقت آگیا ہے‘‘۔
٭ اسفندیار ولی: ’’کٹھ پتلی وزیراعظم کو جانا ہوگا‘‘۔
٭ محمود خان اچکزئی: ’’ناکام حکومت کو اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے‘‘۔
٭ عوام کا نعرہ ہے ’’گو عمران گو‘‘۔
حالات کی کیسی ستم ظریفی ہے کہ چند سال قبل یہ عمران خان ہی تھے جو ڈی چوک میں نواز شریف حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ وہ اس کوشش میں کامیاب ہوئے اور قوم کو ہر قسم کی کرپشن اور استیصال سے پاک ’’نئے پاکستان کا خواب‘‘ دکھا کر ملک کے وزیراعظم بن گئے لیکن وہ اس مقصد میں نہ صرف بری طرح ناکام ہوئے ہیں بلکہ سیاسی طور پر تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس دوران انہوں نے دوستوں سے زیادہ دشمن بنائے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نصف ملین لوگوں پر مشتمل عوامی ایک حیرت انگیز خطرناک اجتماع جسے Critical Mass کہا جاسکتا ہے وہ اسلام آباد میں قائم ہو چکا ہے جس میں تین اہم طبقات شامل ہیں:
٭ مولانا کی اپنی جماعت‘ جماعت اسلامی اور تبلیغی جماعت کے لوگ جو انتہائی منظم ہیں۔ ان کی تعداد زیادہ ہے۔
٭ عمران کی حکمرانی سے اکتائے ہوئے عوام‘ جنہیں حکومت سے کسی خیر کی توقع نہیں ہے۔
٭ ناراض نوجوانوں کا ایسا طبقہ جو ایمان کی طاقت سے معمور ہے اور لبرل ازم‘ سیکولرازم اور وسرے ’ازم‘ کو مسترد کرتا ہے۔
عمران کی سیاسی تنہائی کی بڑی وجہ ان کی جلد بازی اور غیر ضروری اقدامات ہیں۔ وہ اپنے سیاسی حریفوں کو بدنام اور رسوا کرنے کے عمل میں بہت دور جا چکے ہیں حتی کہ وہ اپنی سیاسی اساس‘ یعنی پارلیمنٹ کو بھی بے وقعت کرنے کا باعث بنے ہیں۔ روحانی راہنمائی کی خاطران کی شخصیت اسلام‘ لبرل ازم اور خانقاہ کے مابین گم ہو چکی ہے جیسا کہ وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ: ’’اسلام سے میرا تعلق معنوی ہے جس میں سے میں نے صرف اپنے لیے بہتر حصوں کو منتخب کیا۔ یہ کسی یقین کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اپنی ماں سے محبت کے سبب تھا کہ میں آج ایک مسلمان ہوں‘‘۔ (عرب نیوز)
اس طرح عمران کی سیاست میں ایک خلا پیدا ہوا جسے اب مولانا فضل الرحمن کی زیر قیادت دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں نے پر کیا ہے‘ جنہیں سبقت حاصل ہے۔ انہوں نے حزب اختلاف کی جماعتوں کو ساتھ ملا لیا ہے جو بادل ناخواستہ مولانا کے ساتھ ہیں۔ مولانا نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بات چیت کے ذریعے اسلام آباد کے حساس مقام تک پہنچنے کی اجازت حاصل کر لی اور31 اکتوبر کو آدھی رات کے وقت عوام کی تعداد نصف ملین تک پہنچ گئی جسے ’’انتہائی حساس اجتماع‘‘ (Critical Mass) قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس عوامی اجتماع سے مولانا کو جو حوصلہ ملا ہے اسے ہم عسکری اصطلاح میں ’تذویراتی برتری کی پوزیشن‘‘
(Superiority of Strategic Orientation) کہتے ہیں جہاں سے متعدد اہداف کو ایک ہی مقام سے نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ اب وہ اپنے مطالبات تسلیم کرانے کے لیے اچھی پوزیشن میں ہیں۔ انہوں نے اپنا پہلا مطالبہ پیش کر دیا ہے کہ ’’وزیراعظم عمران خان آئندہ دو دنوں کے اندر اندر استعفا دے دیں‘‘۔ ساتھ ہی انہوں نے قومی اداروں کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’’ان کے معاملات میںمداخلت نہ کریں‘‘۔
وزیراعظم نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا ہے اور فوج نے منتخب حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کر دیا ہے اور حکومت نے اس بڑے عوامی اجتماع کو کسی قسم کا خطرہ نہ سمجھتے ہوئے‘ مولانا کی دھمکیوں کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یعنی اب میدان سج چکا ہے۔ حزب اختلاف کی رہبر کمیٹی نے واضح کر دیا ہے کہ وہ وزیراعظم کے مستعفی ہونے کے مطالبے پر سختی سے کاربند ہے‘ اور ان کے پاس پارلیمنٹ سے اجتماعی استعفوں اور پورے ملک کو بند کرنے کا راستہ کھلا ہے‘ جس کے لیے انہیں نصف ملین عوام کی تائید حاصل ہے جو پولیس‘ فوج اور رینجرز کے حفاظتی حصار کو توڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جہاں تک تعداد کا تعلق ہے تو اس لحاظ سے مولانا کو برتری حاصل ہے۔ اس کے علاوہ انہیں اپنے مقصدکی خاطر اخلاقی طور پر بھی سبقت حاصل ہے۔ وہ آزادی مارچ کو چند ہفتوں کے دھرنے میں تبدیل کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں جس سے حکومت کے اعصاب شل ہو جائیں گے۔ اپنے راستے کھلے رکھتے ہوئے وہ تصادم سے اجتناب کی راہ اختیار کریں گے جبکہ حکومت کی کوشش ہو گی کہ مسئلے کو فوج اور عدلیہ کے سپرد کر دیا جائے لیکن یہ دونوں ادارے اس جال میں نہیں پھنسیں گے۔ اگر 1977ء میں رونما ہونے والے واقعات سے کچھ رہنمائی لی گئی تو فوج اپنی حدود میں رہنے کو ترجیح دے گی۔ البتہ دشمن طاقتوں کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ ’’دہشت گردی‘‘ کی کاروائی کریں جس کے نتیجے میں جانوں کا ضیاع اور امن و امان کے لیے سنگین خطرہ پیدا ہو جائے۔ پیش تر اس کے کہ اس طرح کے حالات پیدا ہوں کوئی درمیانی راستہ تلاش کرنا لازم ہے۔
اس وقت طاقت کے دو مراکز ہیں‘ ایک مولانا کا لایا ہوا ’حساس عوامی اجتماع‘ ہے اور دوسرا ’پارلیمنٹ‘ ہے جسے خود عمران خان نے نظراندازکرکے اور صدارتی آرڈیننس کے اجرا سے بے وقعت کر دیا ہے۔ اب حزب اختلاف کی ذمے داری ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے تقدس کو قائم رکھتے ہوئے کسی سیاسی حل کی راہ اپنائیں۔ خوش قسمتی سے‘ ’’حساس عوامی اجتماع‘‘ نظم وضبط کے دائرے میں ہے اور مسئلے کے آبرومندانہ حل کا خواہاں ہے۔ لہٰذا صورت حال کو سنبھالنے کی یہ بھاری ذمے داری حزب اختلاف کے کاندھوں پرعائد ہوتی ہے۔ وزیراعظم کے استعفے کے لیے دی جانے والی حتمی تاریخ گزر جانے کے بعد اب حزب اختلاف کی جماعتیں دھرنے کی منصوبہ بندی کی خاطر علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کر رہی ہیں اور منصوبے بنا رہی ہیں۔ نئے انتخابات منعقد کرانا اس مسئلے کا حل نہیں ہو سکتا کیونکہ تمام سیاسی جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور انتخابات کی تیاری کے لیے انہیں وقت چاہیے جو صرف اسی صورت ممکن ہے کہ چند سال کے لیے قومی یکجہتی کی خاطر قومی حکومت تشکیل دے دی جائے جس سے تمام سیاسی جماعتوں کو بھرپور تیاری کا وقت مل سکے اور مناسب اقدامات اٹھائے جاسکیں۔ خطے کی موجودہ ابتر سیاسی صورت حال کے پیش نظر یہ سب کچھ حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ لہٰذا پارلیمنٹ اور قومی اداروںکی یہ مشترکہ ذمے داری ہے کہ وہ اس مقصد کی خاطر اپنے اپنے حصے کا کام پوری دیانتداری اور خلوص سے سرانجام دیں۔ جمہوریت کے استحکام کی خاطر ان کے بروقت اور صحیح اقدامات ان کی سیاسی بصیرت کا امتحان ثابت ہوں گے۔