پرویز خٹک کیا کہہ گئے

302

پاکستان کی تاریخ کا کون سا کام ہے جو دہرایا نہیں جا رہا۔ الزام، دھاندلی، احتجاج، دھرنا، استعفے کا مطالبہ، مارشل لاء یا حکومت کی تبدیلی یا تحریک کو ہائی جیک کرنا اس قسم کے تمام کام ایک بار پھر ہو رہے ہیں۔ ہر ایک کام کے لیے میدان تیار کرنے والے تیاری کر رہے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔ حکمرانوں کا رویہ بھی وہی ہے جو سابق حکمرانوں کا رہا ہے۔ اختلاف کا مطلب جمہوریت دشمنی، احتجاج اور مطالبات کا مطلب غداری، چنانچہ مولانا فضل الرحمن کے جوش خطابت میں کہے گئے الفاظ کی بنیاد پر اب ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بننے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ حکومتی مشینری کو مولانا فضل الرحمن کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بنانے کے لیے اقدامات کی ہدایت کی گئی ہے۔ وزیر دفاع پرویز خٹک نے بیان دیا ہے کہ وزیراعظم کو گرفتار کرنے کا بیان شرمناک ہے۔ فوج جمہوری حکومت کے ساتھ ہے۔ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن ٹکرائو ہوا تو حکومت ذمے دار نہیں ہوگی۔ لیکن انہوں نے ایک ایسی بات بھی کہہ دی ہے جس کا مولانا فضل الرحمن کے دھرنے سے براہ راست ظاہری تعلق نہیں ہے۔ البتہ قیاس آرائیاں ہوتی رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کی دوسری مدت کے لیے تقرری نوٹیفائی ہو چکی۔ یہ بالکل اسی طرح کی بات ہے کہ جب مولانا فضل الرحمن نے اداروں کا نام لیے بغیر تنقید کی تو عدلیہ، سی ٹی ڈی، پولیس، کسی خفیہ ایجنسی ایف آئی اے وغیرہ نے کوئی ردعمل نہیں دیا… پاک فوج کے ترجمان نے ردعمل دیا… اس کا سبب کیا تھا! وہی بتا سکتے ہیں لیکن اب پرویز خٹک نے بھی دھرنے، قانون کی خلاف ورزیوں، قانون حرکت میں آنے وغیرہ سے متعلق مباحثے کے دوران یہ فرما دیا کہ آرمی چیف کی تقرری کا نوٹیفکیشن ہو چکا ہے۔ تو کیا یہ بیان مولانا فضل الرحمن کو مارچ اور دھرنا ختم کرنے پر مجبور کر دے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر سارا جھگڑا آرمی چیف کے تقرر کا ہے تو مولانا بڑی ہمت کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ذرا عمران خان صاحب اور مولانا فضل الرحمن کے بیانات کا جائزہ لیں تو بات سامنے آجاتی ہے کہ کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ سب کو جیل میں ڈالوں گا… یعنی آئین قانون سب سے بالاتر وزیراعظم ہیں وہ چاہیں گے تو کوئی بھی جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ اور اب تک ہو بھی یہی رہا ہے۔ اب اگر مولانا فضل الرحمن نے یہ کہہ دیا کہ عوام عمران خان کو گھر سے گرفتار کرلیں گے تو ان کے وزراء اسے شرمناک کیوں کہہ رہے ہیں۔ جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو ایسی ہی باتیں کرتے تھے۔ بجلی کے بل جلا کر سول نافرمانی کا اعلان کرتے تھے تو کیا یہ بغاوت نہیں تھی۔ رہبر کمیٹی نے اجتماعی استعفوں اور ملک بھر میں ہڑتال یا لاک ڈائون کی تجاویز پر غور کیا ہے تو وزراء کہتے ہیں کہ وزیراعظم استعفیٰ نہیں دیں گے۔ اپوزیشن کو استعفے دینے ہیں تو آج ہی دے دے۔ یہ بیانات بھی عمران خان کے دھرنے والے اور جوابات مسلم لیگیوں کے ہیں۔ یہاں تک کہ چند حلقے کھونے اور مولانا فضل الرحمن کے حلقے میں دوبارہ انتخابات کی پیشکش بھی یکساں ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ شہریوں کے حقوق متاثر نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن دھرنے یا آزادی مارچ کے آغاز سے بھی کئی روز قبل سے اسلام آباد کنٹینرز لگا کر جگہ جگہ سے بند کر دیا گیا تھا۔ ایسا کیوں کیا گیا۔ آزادی مارچ تو کراچی سے سڑک کے راستے آرہا تھا چند گھنٹوں میں تو نہیں پہنچ جاتا۔ تو شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت کی آزادی کس نے سلب کی۔ آزادی مارچ والے تو تین روز سے ایک کونے میں پڑے ہوئے ہیں۔ جہاں تک معاہدے کی بات ہے تو دونوں فریقوں کے معاہدوں کی کیفیت بھی وہی ہے جو عمران خان، طاہر القادری اور حکومت کے درمیان ہوئے تھے۔ پہلے زیرو پوائنٹ سے آگے نہ بڑھنے کا وعدہ تھا اب بھی یہی ہے۔ ڈی چوک نہ جانے کی یقین دہانی تھی اب بھی یہی ہے۔ اور عمران خان کا ڈی چوک اور ریڈ زون میں داخلے کا جو جواز تھا وہی مولانا فضل الرحمن کے پاس بھی ہے کہ وزیراعظم نے استعفیٰ نہیں دیا اس لیے اب ہم آزاد ہیں۔ یہ معاہدے اور جواز بھی بس یوں ہی میڈیا اور وقت گزاری کے لیے ہوتے ہیں لیکن رفتہ رفتہ معاملات اسی جگہ پہنچ رہے ہیں جہاں سے واپسی مشکل ہوتی ہے یا پہنچانے والے پہنچانا چاہتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف دھرنے کے دوران عمران خان کو بار بار جس جانب توجہ دلائی گئی تھی وہ یہی تھی کہ سڑکوں پر معاملات طے کرانے کا راستہ اختیار نہ کیا جائے ورنہ یہی حربہ آپ کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے اور آج ہو رہا ہے۔ جس طرح پاک فوج کے ترجمان نے مولانا فضل الرحمان سے یہ سوال کیا تھا کہ اپنی پوزیشن واضح کریں اور اداروں سے خود رابطہ کرکے اپنی تشویش پر بات کریں اب کیا ترجمان وزیر دفاع سے بھی یہی سوال کریں گے کہ آرمی چیف کا نام کیوں لیا… پرویز خٹک کی بات خاصی معنی خیز ہے۔ اگرچہ وزیراعظم اور ان کے وزراء یہ تو کہتے رہتے ہیںکہ فوج حکومت کی پشت پر ہے یا حکومت کے ساتھ ہے۔ لیکن پرویز خٹک کی آرمی چیف کی تقرری والی بات بہرحال قابل توجہ ہے۔شہریوں کے حقوق کے حوالے سے بھی حکومت کے دعوئوں اور اقدامات میں تضاد ہے۔ وزیراعظم اور وزراء کی جانب سے بار بار کہا جا رہا ہے کہ شہریوں کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہییں لیکن اب تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی کہہ دیا کہ مالکان کی مرضی کے بغیر کنٹینر پکڑنا غیر قانونی ہے گویا غیر قانونی کام حکومت ہی کر رہی ہے۔