جمعیت علمائے ہند، بھارتی مسلمان اور کشمیر

1433

 جمعیت علمائے ہند اکابرین دیوبند کی ایک ممتاز مذہبی و سیاسی جماعت ہے جو برصغیر کی تقسیم سے بہت پہلے سے کام کررہی ہے اس نے برصغیر کے مسلمانوں میں دینی شعور بیدار کرنے اور انگریز حکمرانوں کی ثقافتی یلغار کو روکنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ جمعیت کے رہنمائوں نے برصغیر ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلانے میں بھی تاریخ ساز جدوجہد کی ہے اور اس سلسلے میں شدید آزمائش کا سامنا کیا ہے لیکن جب برصغیر میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں پاکستان کی تحریک اُٹھی تو جمعیت علمائے ہند کے رہنمائوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ انہیں دو قومی نظریے پر بھی شدید اعتراض تھا اور قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت بھی ان کے لیے ہر اعتبار سے ناقابل قبول تھی۔ وہ آل انڈیا کانگریس کے مقابلے میں آل انڈیا مسلم لیگ کو انگریزوں کی ٹوڈی جماعت سمجھتے تھے۔ جمعیت علمائے ہند کے رہنمائوں کا موقف تھا کہ ہندوستان کی تقسیم انگریزوں کی سازش ہے اس طرح وہ ہندوستان سے رخصت ہوتے ہوئے مسلمانوں کا شیرازہ بکھیرنا چاہتے ہیں لیکن جب 1940ء میں قرار داد پاکستان کی منظوری کے بعد تحریک پاکستان نے زور پکڑا اور برصغیر کے طول و عرض میں ’’پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ‘‘ کا نعرہ گونجنے لگا تو جمعیت علمائے ہند کا موقف دھرے کا دھرا رہ گیا اور مسلمان اس نعرے کے سحر میں کھو گئے۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ ایک ممتاز عالم دین اور صاحب کشف بزرگ تھے اگرچہ ان کا تعلق بھی دیو بندی مکتب فکر سے تھا لیکن ان کے ارادت مندوں کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ مولانا تھانویؒ نے اپنا وزن تحریک پاکستان کے پلڑے میں ڈال دیا اور اسے مشیّتِ الٰہی قرار دیا۔ جب کہ تحریک پاکستان برپا ہوتے ہی جمعیت علمائے ہند میں بھی پھوٹ پڑ گئی اور صائب الرائے علما کا ایک گروہ جس کی قیادت مولانا شبیر احمد عثمانی کررہے تھے، تحریک پاکستان کا پُرجوش حامی بن گیا۔ مولانا عثمانی نے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت پر مولویوں کے مذہبی اعتراضات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے ان پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ اس طرح قائد اعظم مسلمانوں کے دلوں میں بس گئے اور جمعیت علمائے ہند کے کانگریسی علما منہ دیکھتے رہے۔
ہندو اور مسلم اکثریت کی بنیاد پر ہندوستان کا بٹوارہ ہوا۔ کانگریس اگرچہ متحدہ ہندوستان کی حامی تھی لیکن بادلِ ناخواستہ اس نے اس تقسیم کو قبول کرلیا اور نئے ملک بھارت میں اقتدار کے مزے لینے لگی۔ جمعیت علمائے ہند بھی اس کے ساتھ اقتدار میں شریک ہوگئی اس کے لیڈروں نے بھارت میں آباد مسلمانوں کو درپیش مشکلات پر ذرا سا غور کرنے کی زحمت نہیں کی۔ تقسیم کے وقت جس بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام ہوا اس پر بھی کانگریسی علما خاموش تماشائی بنے رہے۔ انہوں نے بھارتی مسلمانوں کو ہندو شدت پسندوں سے بچانے اور اس سلسلے میں کانگریسی حکومت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی ذرا سی کوشش نہ کی، ان علما کا خیال تھا کہ بھارت میں رہ جانے والے مسلمان بھی پاکستان بنانے میں برابر کے شریک ہیں اور انہیں اس جرم کی سزا مل رہی ہے۔ جب تک کانگریس برسراقتدار رہی جمعیت علماء ہند اس کے چرنوں میں بیٹھی رہی۔ کانگریس
کے دور میں بے شمار مسلم کش فسادات ہوئے اسی کے اقتدار میں تاریخی بابری مسجد کو شہید کیا گیا لیکن کانگریسی علما کے ماتھے پر شکن نہ آئی، کانگریس اقتدار سے بے دخل ہوئی اور انتہا پسند بی جے پی نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو کانگریسی علما نے بھی اپنا چولا بدل لیا اور جمعیت علما نے ہند بی جے پی حکومت کی طرفدار ہوگئی۔ کانگریس نے تو پھر بھی کسی نہ کسی اعتبار سے سیکولرازم کا بھرم رکھا ہوا تھا لیکن بی جے پی برسراقتدار آئی تو اس نے سیکولرازم کا نقاب اُتار پھینکا اور کٹر ہندو ریاست کے قیام کو اپنا مشن بنالیا۔ اس نے ’’ہندتوا‘‘ کو اپنی منزل ٹھیرایا جس کا مطلب ہے کہ بھارت میں موجود تمام انسانوں سمیت ہر چیز کو ہندو مت کے قالب میں ڈھالنا، اس نظریے کے تحت ہندو انتہا پسندوں کو مسلمان، عیسائی اور دیگر غیر ہندو اقلیتوں کا وجود کسی صورت بھی برداشت نہیں ہے وہ ان سب کو ہندو بنانا چاہتے ہیں۔ بی جے پی کے رہنما راجیشور سنگھ نے تو دعویٰ کیا ہے کہ ان کی جماعت 2021ء تک تمام مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو بنالے گی اور ان کا انفرادی مذہبی وجود ختم کردیا جائے گا۔ واضح رہے بھارت میں مسلمانوں کی تعداد 20 کروڑ اور عیسائیوں کی تعداد 3 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس اشتعال انگیز بیان کے باوجود جمعیت علمائے ہند کے کانوں پر جُوں نہیں رینگی وہ بدستور بی جے پی کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے اور اس کے لیڈر نریندر مودی کی خوشامد میں مصروف ہیں اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جو غیر قانونی اقدامات کیے ہیں اور وہ کشمیری مسلمانوں پر جو ظلم توڑ رہا ہے جمعیت علمائے ہند کے سربراہ مولانا محمود احمد مدنی نے اس کی پُرزور تائید کی ہے اور بی جے پی کے لیڈروں کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسی علیحدگی پسند تحریک کی ہرگز تائید نہیں کرسکتے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ہم بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی بھرپور تائید کرتے ہیں اور مودی حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
جمعیت علمائے ہند کے اس طرز عمل سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بھارتی مسلمانوں اور اہل کشمیر کے بارے میں کس قدر سنگ دلی کا شکار ہے اور اس کے لیڈر ذاتی مفادات کے لیے مسلمانوں کی قسمت سے کھیل رہے ہیں، جب کہ انہیں پارسائی کا دعویٰ بھی ہے۔
باقی صفحہ7نمبر1
متین فکری
حقیقت یہ ہے کہ اِن لوگوں کے مقابلے میں اُن غیر مسلم دانشوروں، ادیبوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کا کردار کہیں زیادہ روشن اور انسانیت نواز ہے جو کھل کر مودی حکومت کے اقدامات پر تنقید کررہے ہیں۔ عالمی شہرت کی حامل متاز مصنفہ ارون دھتی رائے کا کہنا ہے کہ اگر کشمیری بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو بھارت کس قانون اور آئین کے تحت انہیں اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کررہا ہے اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ جب کہ مولانا محمود احمد مدنی کہتے ہیں کہ کشمیر کی فلاح بھارت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور اس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔ شاید اسی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود