اصلاھ معاشرہ اور مسجد

150

وارث مظہری

مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں مسجد کا کردار نہایت اہم رہا ہے۔ لیکن موجودہ دور میں وہ نماز کی حد تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ نماز کی اجتماعی سطح پر ادائگی مسجد کا بنیادی کردار ہے۔ لیکن یہ کل اور آخری کردار نہیں ہے۔ ہم اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ رسولؐ اور اصحاب رسول کی زندگی میں مسجد دینی، سماجی اور سیاسی تمام قسم کی مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کا مرکز ہوتی تھی۔ اسی وجہ سے عہد وسطیٰ کے حکمراں جمعہ و جماعت کے قیام کی ذمے داری خود نبھاتے تھے کہ اپنے آپ کو مسجد سے دوررکھ کر وہ اقتدا ر سے قریب نہیں رہ سکتے تھے۔ بعد میں اس صورت حال میں تبدیلی آئی۔ لیکن یہ روایت برقرار رہی کہ حکومت کے قانونی سطح پر اعتبارکے لیے، نئے سکے کے اجرا کے ساتھ، متعلقہ حکمران کے نام کا خطبہ جمعہ میں پڑھا جانا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ دینی اور دنیوی تعلیم کی تفریق کے بغیر تعلیمی سرگرمیوں کا اصل مرکز مسجد تھی۔ سبھی لوگ واقف ہیںکہ جامع ازہر پہلے ایک مسجد ہی تھی جو بعد میں جامعہ میں تبدیل ہوگئی۔ اس سے مسجد کے مسلم سماج پر اثرات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے اثرات کے کم ہونے کی وجہ سے مسلم سماج کو بڑا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ مسلمانوں میں سماجی اصلاح کی تحریکوں کے کامیاب نہ ہو پانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ موجودہ دور میں تبلیغی جماعت کو اپنے مقصد میں ملنے والی کامیابی میں سب سے اہم کردار مسجد کا ہی ہے۔
اس وقت لوگو ں کی توجہ مدارس کے کردار کو وسیع و متنوع کرنے پر مرکوز ہے۔ یہ بلاشبہ اہم ہے۔ لیکن کئی حیثیتوں سے مسجد کی اپنی انفرادیت ہے، جو مدرسے کو حاصل نہیں ہے۔ مسجد سے ہر طبقے کے لوگ جڑے ہوئے ہیں۔ دولت مند، غریب، تعلیم یافتہ، غیرتعلیم یافتہ اور مختلف افکار و رجحانات رکھنے والے افراد۔ مسجد ان سب کی نمائندگی کرتی ہے۔ جبکہ مدرسہ ان سب کی نمائندگی نہیں کرتا۔ کیونکہ جمعے میں ہی سہی، لیکن دو ایک فی صد کے اسثتنا کے ساتھ، مسلمانوں کی اکثریت مسجد میں حاضر ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے مسجد کی آواز براہ راست مسلمانوں کے ہر گھر میں پہنچتی ہے۔ جبکہ مدارس کا رخ کرنے والے مسلمانوںکا تناسب صرف چار فی صد ہے جس میں غالب اکثریت غریب خاندانوں کے افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔
اس لحاظ سے اگر مسجد کو مسلم سماج سے مطلوب سطح پر جوڑ دیا جائے تو اس کا فائدہ لا محدود ہے۔ اس سے مسلمانوں کی فکر سازی اور سماج کی اصلاح ’عملًا دونوںایک دوسرے سے وابستہ ہیں‘ دونوں کا کام لیا جاسکتا ہے۔ مسجد کی انتظامیہ اور امام صحیح شعور سے بہرہ ور ہوں تو مسجد ایک فکر ساز ادارے ’تھنک ٹینک‘ کا کام کرسکتی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ مسجد کے حاضرین وسامعین میں ہر طبقے اور ہر صلاحیت کے مخلص وسنجیدہ لوگ شامل ہیں۔ مسجد کے ذریعے سماجی اصلاح کے مختلف پروگرام بنائے اور روبہ عمل لائے جاسکتے ہیں۔ ایک نہایت آسان اور مؤثر طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ایک علاقے یا ضلعے کی تمام یا اکثر بڑی مسجدوںکے ائمہ ایک متعین مدت کے دوران مجموعی طور پر ایک ہی موضوع کو مستقل خطاب کا عنوان بنا کر عوام کی ذہن سازی کی کوشش کریں۔ چند ہفتوں بعد پھر اسی طرح ان سے کسی دوسرے موضوع کو مشترکہ طور پر خطاب کا عنوان بنانے کی درخواست کی جائے۔ البتہ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ ان موضوعات پر ضروری اور اہم لٹریچر انہیں فراہم کیا جائے۔ یہ کام باضابطہ کسی ادارے کو کرنا چاہیے۔ ائمہ کی انجمنوں سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔