’’ہمت جوڑ سکتی ہے‘‘

350

 

غزالہ عزیز

کشمیر آج دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک آزاد کشمیر جہاں کے لوگ مکمل آزادی کے ساتھ سانس لیتے ہیں۔ سفر کرتے ہیں، تجارت کرتے ہیں اور زندگی کی ساری دوسری سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ پچھلے دنوں عمران خان نے وہاں ایک بڑا جلسہ کیا اور ہزاروں کشمیریوں نے اس میں شرکت کی۔ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر ہے جہاں پچھلے تقریباً دو مہینے سے لاکھوں کشمیری گھروں میں قید ہیں۔ عورتیں، بچے، بوڑھے، مرد سب مشکلات کا شکار ہیں۔ کھانا پینا، دوائیں سب ناپید ہیں۔ گھروں میں اموات ہورہی ہیں، جن کو لوگ گھروں ہی میں دفنانے پر مجبور ہیں۔ رابطے کے سارے ذرائع بند ہیں، فون انٹرنیٹ موبائل بند ہیں، اسکول، کالج، یونیورسٹی سب بند ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس کے ذریعے وہ میڈیا سے بات کرسکیں، ان کے سارے رہنمائوں کو حکومت نے گرفتار یا نظر بند کیا ہوا ہے۔ لوگوں میں بے چینی اور اضطراب بڑھتا جارہا ہے۔ حکومت مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں۔ بلکہ نفرت میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ کشمیری عوام کہتے ہیں کہ انڈین حکومت کے ہاتھوں ان کا مستقبل غیر یقینی کیفیت کی گرفت میں ہے۔ انڈیا کی حکومت سب کو قید میں ڈال کر اپنی مرضی کے فیصلے کررہی ہے۔آج کشمیریوں کی نئی نسل میں موت کا خوف نہیں ہے کیوں کہ وہ زندہ رہ کر بھی پل پل مر رہے ہیں۔ یہ دو کشمیر دو متضاد کیفیت کا شکار ہیں۔ ایک آزادی محبت، خلوص اور بھائی چارے کی فضا سے مہک رہا ہے اور دوسرا قید تنہائی، بھوک، پیاس، بیماری، ظلم اور نفرت کے زہر کا شکار ہو کر پل پل مر رہا ہے۔ تاریخ میں اس سے ملتا جلتا وقت ایک اور شہر نے بھی دیکھا تھا۔ برلن جس کو کشمیر ہی کی طرح دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ میں جرمنی کی شکست کے بعد امریکا اور روس نے برلن کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔ ان دونوں حصوں کے درمیان ایک دیوار تعمیر کردی گئی تھی جو دونوں حصوں کے درمیان حائل تھی۔ یہ دیوار جب تعمیر کی گئی تو اس نے خاندانوں کو تقسیم کردیا۔ جو جس طرف رہتا تھا وہیں رہ گیا۔ اور کئی دہائیوں تک وہ آپس میں ملنے سے محروم ہوگیا۔
برلن کا مشرقی حصہ جسے مشرقی برلن کہا جاتا تھا روسی فوج کے ماتحت تھا اور مغربی حصہ جس کو مغربی برلن کہا جاتا تھا امریکی افواج کے زیر اثر رہا۔ برلن کے درمیان اٹھائی جانے والی دیوار جس کو دیوار برلن کہا جاتا تھا۔ 1961ء میں مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت نے تعمیر کی تھی اس وقت امریکا اور روس تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر تھے۔ اس دیوار نے ایک ہی شہر کے خاندان، دوستوں اور بھائیوں کو ایک دوسرے سے جدا کردیا تھا۔ 4 نومبر 1989ء ایک تاریخی دن تھا جب برلن کا اس جدا کردینے والی دیوار کو گرادیا گیا۔ احتجاجی مظاہروں اور بین الاقوامی دبائو کے باعث مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت کو اس معاملے میں گھٹنے ٹیکنے پڑے اُس رات برلن کے شہریوں کے لیے عید کی رات تھی جب وہ اپنے پیاروں سے مل سکے کیوں کہ دیوار برلن ڈھادی گئی۔ 44 سال بعد 1989ء میں برلن کا اتحاد ایک تاریخی واقعہ تھا۔ اس واقعے نے یورپ کو تبدیل کرکے رکھ دیا کیوں کہ برلن یورپ کے لیے اتنا اہم تھا جتنا ایک انسانی جسم کے لیے دل۔ اور برلن کو دو ٹکڑے کرکے حقیقت میں یورپ کے دل کے دو ٹکڑے کیے گئے تھے اور 1989ء میں اس کا اتحاد دراصل یورپ کے قلب کو زندگی دینے کے مترادف تھا۔ آج جرمنی اپنے دارالحکومت برلن کے اتحاد کی انتیسویں سالگرہ منا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ہونے والی تقریبات کا عنوان رکھا گیا ہے ’’ہمت جوڑ سکتی ہے‘‘۔ حالاں کہ اس زمانے کے سیاست دان خصوصاً مشرقی جرمنی کمیونسٹ پارٹی کے لوگ اس معاملے میں یکسو تھے کہ یہ دیوار قائم رہے گی، دیوار برلن کے انہدام سے کچھ ماہ قبل اس پارٹی کے جنرل سیکرٹری نے کہا تھا ’’یہ دیوار پچاس برس کیا سو برس بعد بھی قائم رہے گی‘‘۔ اور پھر چند ماہ کے اندر یہ دیوار ٹوٹ گئی۔
آج کشمیر کی آزادی کے بارے میں کچھ ایسے ہی بیانات مودی دے رہے ہیں۔ وہ یہ ظاہر کررہے ہیں کہ کشمیر کے سلسلے میں آئین شق 370 کو ختم کرنا ایک ایسا فیصلہ ہے جس کے بعد کشمیر میں سب نارمل ہے اور یہ عمل محض انتظامی طور پر کیا گیا ہے۔ اور یہ کہ یہ انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے لیکن آج دو ماہ کے کرفیو کے بعد بھی کشمیر میں کچھ نارمل نہیں ہے راستے بند ہیں۔ رابطے ٹوٹے ہوئے ہیں۔ لیکن کشمیری عوام کے حوصلے بلند ہیں۔ کشمیریوں میں مزاحمت کی قوت بہت زیادہ ہے یہ
حالات اُن کے لیے نئے نہیں ہیں، عشروں سے وہاں ایسے ہی ظلم کیا جارہا ہے، البتہ دو ماہ کرفیو کے انتہائی ظالمانہ اور غیر انسانی ہیں اس کے لیے دنیا کیا کررہی ہے؟ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس سلسلے میں صرف تنقید نہ کریں لاکھوں لوگ بھارت کے جبر کا شکار ہیں، ہزاروں نوجوانوں اور بچوں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ آخر کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب کا حق دینے میں کیا چیز مانع ہے۔ ظاہر ہے وہ بھارت کی حکومت ہے وہ سات لاکھ فوج ہے جو کشمیر میں مظالم کرنے کے لیے بھیجی گئی ہے جو لوگوں کو گھروں میں قید کرکے انہیں بھوکا پیاسا مارنا چاہتی ہیں وہاں بیماریوں کے لیے دوا میسر نہیں ہے، مرجانے والے لوگ گھروں ہی میں دفنائے جارہے ہیں اس صورت حال میں کشمیری عوام بنیادی انسانی حقوق چاہتے ہیں۔ جینے کا حق چاہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت استصواب رائے کا حق چاہتے ہیں۔ بین الاقوامی اداروں کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال کو دیکھنا چاہیے، دو ماہ کرفیو کے گزر چکے ہیں۔ آخر کیوں اور کب تک کشمیری یہ برداشت کریں؟ یقینا ایسا دن تو جلد آئے گا کہ جب دونوں طرف کے کشمیر ایک ہوں گے۔ درمیان کی دیوار منہدم کردی جائے گی اور کشمیر آزادی کے ساتھ استصواب رائے میں حصہ لیں گے۔ اور فیصلہ کریں گے ان شاء اللہ جلد آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر ایک ہوگا اور آزاد ہوگا۔ کیوں کہ ’’ہمت جوڑ سکتی ہے‘‘ اور اہل کشمیر اہل برلن سے کم ہمت والے نہیں بلکہ زیادہ ہی نہیں کشمیر پر مظالم بھارت کے ٹوٹنے کا عنوان بنے گا کیوں کہ ظلم اور بے انسانی سے حکومتیں قائم نہیں رہتیں۔