امریکی جنگ میں شرکت سب سے بڑی غلطی تھی،عمران خان

118
نیویارک،وزیر اعظم عمران خان سے کنٹرول لائن کے دونوں جانب کے کشمیری رہنما ملاقات کررہے ہیں
نیویارک،وزیر اعظم عمران خان سے کنٹرول لائن کے دونوں جانب کے کشمیری رہنما ملاقات کررہے ہیں

نیویارک(خبر ایجنسیاں)وزیراعظم عمران خان نے نائن الیون کے بعد امریکا کا اتحادی بننا پاکستان کی سب سے بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس جنگ میں 70 ہزار پاکستانی جاں بحق ہوئے اور 200 ارب کا معیشت کو نقصان ہوا۔ کونسل آن فارن ریلیشنز میں گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ جب ہم حکومت میں آئے تو بدترین معاشی صورت حال تھی اور چین نے ہماری مدد کی اگر چین سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات مدد نہ کرتے تو ہم دیوالیہ کی طرف جارہے تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت چین ہمیں تجارتی مواقع فراہم کررہا ہے اور چینی صنعت کو پاکستان منتقل کرنے کا اچھا موقع ہے۔افغانستان میں امریکی جنگ میں پاکستان کے کردار پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں پہلے جہادی پیدا کیے گئے اور پھر ان کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ نائن الیون کے بعد امریکا کے ساتھ شامل ہونا پاکستان کی سب سے بڑی غلطی تھی کیونکہ اس کی وجہ سے 70 ہزار پاکستانی جاں بحق ہوئے، بعض پاکستانی ماہرین معیشت کہتے ہیں کہ 150 ارب سے زائد اور بعض کہتے ہیں 200 ارب سے زیادہ معیشت کو نقصان ہوا ہے۔ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ طالبان چاہتے تھے میرے ساتھ ملاقات ہو لیکن افغانستان کی حکومت نہیں چاہتی تھی اس لیے یہ ملاقات منسوخ کی۔وزیراعظم نے کہا کہ چین کے ساتھ مختلف معاملات پر ہم بات کرتے ہیں جس کو یہاں بیان نہیں کروں گا لیکن ہم افغانستان کے معاملات بھی دیکھ رہے ہیں پھر ایران اور سعودی عرب کے درمیان بھی معاملات ہیں اسی کے دوران بھارت بھی ہے۔چین کے حوالے سے سوالات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چین نے تجارت پر توجہ مرکوز رکھی اور چین کی جو بات مجھے سب سے اچھی لگتی ہے وہ کروڑوں شہریوں کو غربت سے نکالنا ہے اور میرا بھی یہی مقصد ہے۔ان کا کہنا تھا کہ چین نے کرپشن کے خلاف بڑی کارروائیاں کی اور کاش میں اپنے ملک بھی کرپشن کے خلاف ایسا ہی کرسکتا۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات اس وقت ملتوی ہوئے جب دستخط ہونے والے تھے اگر ہم سے مشاورت کی جاتی تو شاید ہم کردار ادا کرتے۔ امریکی تھنک ٹینکس سے خطاب کے دوران وزیراعظم نے کہا کہ اسلام ایک ہی ہے، اکثریت اعتدال پسند ہے اور ایک چھوٹی سی تعداد انتہا پسند ہے، ہمارے لیے اسلام وہ ہے جو ہمارے نبی محمدﷺ ہمیں دے کر گئے، دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کے خوفناک نتائج سامنے آئیں گے۔نیویارک میں امریکی تھنک ٹینکس کونسل فارفارن ریلیشنز سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اسلام مخالف بیان پر ردعمل دیا۔ گزشتہ روز مودی کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی تھی۔ اس پر وزیراعظم نے جواب دیتے ہوئے خبردار کیا کہ ایسا کرنا خطرناک نتائج کی وجہ بن سکتا ہے۔وزیراعظم نے واضح کیا کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ ہر معاشرے میں انتہاء پسند ہوتے ہیں، جیسا کہ آپ کے ہاں بھی نسل پرست لوگ موجود ہیں۔ ہمارے لیے اسلام وہ ہے جو ہمارے نبی محمدﷺ ہمیں دے کر گئے۔ اسلام ایک ہی ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت اعتدال پسند ہے اور ایک چھوٹی سی تعداد انتہا پسند ہے۔ اس چھوٹی سی تعداد کی وجہ سے تمام مسلمانوں اور اسلام کو بدنام نہیں کیا جا سکتا۔وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے چین کی طرح کرپشن کیخلاف نہیں نمٹ سکتا، بدقسمتی سے میرے پاس چینی ماڈل نہیں ہے،چین نے 450 حکومتی اہلکاروں کو جیل میں ڈالا، کاش میں کرپٹ لوگوں کے ساتھ وہ کرسکتا جس طرح چین نے کیا، ہرکسی کو چین سے سیکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی تمام پالیسیوں میں فوج ساتھ ہے۔فوج نے سکیورٹی ایشوزکے باوجود حکومتی پالیسیوں کی حمایت کی۔ہمسایوں سے اچھے تعلقات کا خواہاں ہوں، ہم نے کرتارپورکھولافوج کو اعتراض ہوتا تومزاحمت کرتی۔ عمران خان نے کہا کہ بھارت نے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف میں بلیک لسٹ کرنے کی پوری کوشش کی۔بھارتی وزیراعظم کو واضح پیغام دیا کہ حکومت اور پاک فوج ایک پیج پر ہے۔بھارت کشمیر میں عالمی قوانین کی خلاف ورزیاں کررہا ہے۔ایسے ماحول میں بھارت کے ساتھ کیسے بات ہوسکتی ہے؟50روز سے کشمیر میں کرفیونافذ ہے، جس کے نتیجے میں بھارت نے 80لاکھ کشمیریوں کو گھروں میں نظربند کیا ہوا ہے۔عالمی برادری کو کرفیوہٹانے کیلیے کردار ادا کرنا چاہیے۔کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان واحد تنازع ہے۔دونوں ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہیں۔اگر جنگ ہوئی توکچھ بھی ہوسکتا ہے۔مودی نے انتخابی مہم بھی پاکستان دشمنی پر چلائی، انتخابات کے بعد مودی کو مذاکرات کی پیشکش بھی کی۔ بھارت نے ہمیشہ ہماری امن پسندی کو کمزوری سمجھا ۔چین نے کبھی ہماری خارجہ پالیسی میں مداخلت نہیں کی،چین نے ہم سے کبھی ایسے مطالبات نہیں کیے، جس سے ہماری سلامتی کو خطرہ ہو۔دریںا ثناء امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ کل بھارتی وزیراعظم نے بہت جارحانہ زبان استعمال کی، پاکستان تیار ہے لیکن دوسری طرف بھی ثالثی کی پیشکش قبول کرے تو تب ہی میں ثالثی کروا سکتا ہوں۔ وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات ہوئی ہے۔ دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان ملاقات امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں ہوئی ہے۔اس ملاقات کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ گزشتہ روز ہوسٹن جلسے میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کافی جارحانہ زبان کا استعمال کیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر مسئلہ کشمیر کے حل کیلیے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کروانے کی پیش کش کی۔تاہم اس موقع پر یہ بھی کہا کہ پاکستان تو امریکا کی ثالثی کیلیے تیار ہے لیکن بھارت اس سے انکار کر رہا ہے۔ امریکی صدر نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اور بھارتی وزیراعظم سے بہت اچھے تعلقات ہیں تاہم جب تک بھارت بھی راضی نہیں ہوتا تب تک وہ عملی طور پر ثالثی کا کردار نہیں ادا کر سکتے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ مجھ سے پہلے امریکی قیادت نے پاکستان سے اچھا سلوک نہیں کیا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانیوں کو شکرگزار ہونا چاہیے کہ انہیں ایسا عظیم اور شاندار لیڈر ملا ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں افغان مسئلے پر بات کرنا چاہتا ہوں یہ مسئلہ ہمارے لیے بہت اہم ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹرمپ مودی سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اٹھانے کا کہیں جس پر امریکی صدر نے کہا کہ وہ مودی سے کرفیو اٹھانے کے لیے بات کریں گے۔
عمران خان