مہنگائی کا ذمے دار اسٹیٹ بینک

321

بینک دولت پاکستان نے اس امر کا اعتراف کرلیا ہے کہ شرح سود میں اضافہ کرنے کی وجہ سے ملک میںمہنگائی کا طوفان آگیا ۔ عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے شرح سود 7.50 سے بڑھ کر 13.25 فیصد پر پہنچ گئی۔ یہ اعتراف بینک دولت پاکستان کے ڈپٹی گورنر جمیل احمد نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں ایک بریفنگ کے دوران کیا ۔اسی بریفنگ میں معروف بزنس مین اشفاق تولہ نے بتایا کہ بنگلا دیش میں افراط زر کی شرح 5.2 فیصد اور بھارت میں 3.2 فیصد ہے جبکہ پاکستان میں افراط زر کی شرح 11.6 فیصد ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں اس وقت کوئی سرمایہ کاری نہیں ہورہی جبکہ خراب معاشی حالات کی بناء پر گاڑیاں بنانے کا ایک بڑا پلانٹ بند ہوچکا ہے ۔ اسی اجلاس میں ماہر معیشت ثاقب شیرانی نے کہا کہ حکومت کی ترجیحات سمجھ میں نہیں آرہی ہیں ۔ آئی ایم ایف نے بینک دولت پاکستان کے اس دعوے کو مسترد کردیا ہے کہ پاکستان میں ترقی کی شرح نمو 3.6 فیصد رہی ۔ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ ترقی کی شرح نمو بینک دولت پاکستان کے دعوے کے برعکس 2.4 فیصد رہی ۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کے 2018-19 کے حسابات کو متوقع سے بھی بدتر قرار دیا ہے ۔ مذکورہ بالا صورتحال کو وزیر اعظم عمران نیازی کی کارکردگی رپورٹ قرار دیا جاسکتا ہے ۔ ان ہی صفحات پر ہم عرصے سے اس امر کی نشاندہی کررہے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی کا سونامی لانے کی ذمہ داری بینک دولت پاکستان پر عاید ہوتی ہے جس نے محض آئی ایم ایف کے حکم پر پاکستانی کرنسی کی قدر گرادی اور ڈالر کے مقابلے میں شرح تبادلہ 106 روپے فی ڈالر سے بڑھ کر 160 روپے فی ڈالر تک جاپہنچی ۔ اس کا اثر ہر درآمدی چیز پر پڑا اور پٹرول، بجلی گیس وغیر ہ سب کی قیمتوں کو پر لگ گئے ۔ اس کے نتیجے میں ہر شے کی قیمت میں راتوں رات زبردست اضافہ ہوگیا ۔ کاروں کی قیمت میں 8 لاکھ روپے فی کار تک کا اضافہ ہوا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انڈس موٹرز کی کار پارکنگ فروخت میں زبردست کمی کے باعث تیار گاڑیوں سے بھر گئی اور اسے اپنا پلانٹ بند کرنا پڑ گیا ۔ مہنگائی کے اس طوفان نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا اور ایک ایک کرکے صنعتیں بندش کا شکار ہونے لگیں ۔ اس پر وزیر اعظم عمران خان نے مزید ایسے اقدامات کیے جن کے باعث وہ صنعتیں بھی جو لولی لنگڑی چل رہی تھیں، وہ بھی بندش کا شکار ہوگئیں ۔ان صنعتوںمیں تعمیرات کی صنعت بھی شامل ہے ۔ اس کی صنعت کو صنعتوں کی ماں کہا جاتا ہے کیوں کہ تعمیرات کے نتیجے میں سیمنٹ ، سریا، ٹرانسپورٹ ، سینیٹری پائپ ، سینٹری فٹنگ ، ٹمبر، لکڑی کے کام سمیت تقریبا 70 صنعتوں سے وابستہ افراد کو روزگار ملتا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان پتا نہیں کون سی یوٹوپیا میں رہتے ہیں جو ہر کچھ دن بعدصورتحال کی بہتری کے لیے ایک نئی ڈیڈ لائن دے دیتے ہیں ۔ جب وہ برسراقتدار آئے تھے تو کارکردگی دکھانے کے لیے انہوں نے سو روز کی مہلت طلب کی ۔ سو روز ختم ہونے کے بعد ایک سال کی مہلت طلب کی گئی اور جب ان کے اقتدار کا ایک سال بھی مکمل ہوگیا تو اب مزید دو سال اور کبھی پورے پانچ سال مکمل ہونے کی بات کی جارہی ہے ۔ اب تو گھر کے بھیدی نے راز کھول دیا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی ذمہ داری بینک دولت پاکستان پر ہی عاید ہوتی ہے ۔ جب کسی بیماری کی تشخیص ہوجائے تو علاج آسان ہوجاتا ہے ۔ اب جبکہ خود بینک دولت پاکستان کے ڈپٹی گورنر نے اس امر کا اعتراف کرلیا ہے اور دیگر ماہرین معاشیات نے بھی نشاندہی کردی ہے کہ روپے کی قدر میں کمی اور شرح سود میں اضافہ ہی سارے فساد کی جڑ ہے تو اصولی طور پر اس کی درستی اور تلافی کے لیے اقدامات کرنے چاہییں ۔ تاہم وزیر اعظم عمران خان روپے کی قدر میں بہتری اور شرح سود میں کمی کے لیے کوئی قدم اس لیے نہیں اٹھائیں گے کہ وہ آئی ایم ایف کے املا پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ توقع سے زیادہ حکم ماننے کا ماضی رکھتے ہیں ۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے بینک دولت پاکستان کے سربراہ کو جو آئی ایم ایف کے حاضر سروس ملازم بھی ہیں ، 30 ستمبر کو طلب کیا ہے ۔ اس طلبی کے کسی قسم کے مثبت نتائج تو ملنے کی کوئی توقع نہیں ہے تاہم وہ آئی ایم ایف کا پالیسی بیان ضرور قائمہ کمیٹی کے گوش گزار کردیں گے ۔ اس وقت آئی ایم ایف کی ٹیم کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات بھی عجیب و غریب پہلو لیے ہوئے ہیں ۔ یعنی آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان میں موجود اپنی ہی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کرتی ہے کہ اسے آئی ایم ایف نے جو ایجنڈا دیا ہے ، اس پر کس طرح سے عملدرآمد ہوا اور پاکستانی قوم کو نچوڑنے اور پاکستان کی معاشی حالت کی تباہی کے لیے مزید کیا کچھ کیا جاسکتا ہے ۔ ایسا مذاق کم ہی دیکھنے میں آتا ہے ۔ ادارہ شماریات کی تازہ رپورٹ کے مطابق مہنگائی کی شرح میں 18.10 فیصد اضافہ ہوا۔ آلو، لہسن، پیاز، انڈے، خوردنی تیل، گڑ اور دالوں سمیت 27 اشیاء مہنگی ہوئی ہیں۔ آئی ایم ایف نے اپنے اعلامیے میں تسلی دی ہے کہ ’’مہنگائی کم ہو گی‘‘۔ مگر کب اور کیسے؟