افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

163

(10 نبوی)حضرت خدیجہ اور ابوطالب کی وفات کے بعد کفار مکہ نبی ؐکے مقابلے میں اور زیادہ دلیر ہو گئے۔ پہلے سے زیادہ آپ کو تنگ کرنے لگے۔ حتیٰ کہ آپ کا گھر سے باہر نکلنا بھی مشکل ہو گیا۔ اسی زمانہ کا یہ واقعہ ابن ہشام نے بیان کیا ہے کہ ایک روز قریم کے اوباشوں میں سے ایک شخص نے سر بازار آپ کے سر پر مٹی پھینک دی۔
&٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭
آخر کار آپ اس ارادے سے طائف تشریف لے گئے کہ بنی ثَقیف کو اسلام کی طرف دعوت دین اور اگر وہ اسلام نہ قبول کریں تو انہیں کم از کم اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ آپ کو اپنے ہاں چین سے بیٹھ کر کام کرنے کا موقع دے دیں۔ آپ کو اس وقت کوئی سواری تک میسر نہ تھی۔ مکہ سے طائف تک کا سارا سفر آپ نے پیدل طے کیا۔ بعض روایات کی رو سے آپ تنہا تشریف لے گئے تھے، اور بعض روایات کے مطابق آپ کے ساتھ صرف حضرت زید بن حارثہ تھے۔ وہاں پہنچ کر چند روز آپؐ نے قیام کیا اور ثقیف کے سرداروں اور معززین میں سے ایک ایک کے پاس جا کر بات کی۔ مگر انہوں نے نہ صرف یہ کہ آپ کی کوئی بات نہ مانی، بلکہ آپ کو صاف صاف نوٹس دے دیا کہ ان کے شہر سے نکل جائیں، کیونکہ ان کو اندیشہ ہو گیا تھا کہ کہیں آپ کی تبلیغ ان کے نوجوانوں کو ’’ بگاڑ‘‘ نہ دے۔ مجبوراً آپ کو طائف چھوڑ دینا پڑا۔ جب آپ وہاں سے نکلنے لگے تو ثقیف کے سرداروں نے اپنے ہاں کے لفنگوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا۔ وہ راستے کے دونوں طرف دور تک آپ پر آوازے کستے، گالیاں دیتے اور پتھر مارتے چلے گئے، یہاں تک کہ آپ زخموں سے چور ہو گئے اور آپ کی جوتیاں خون سے بھر گئیں۔ اس حالت میں آپ طائف کے باہر ایک باغ کی دیوار سے سائے میں بیٹھ گئے اور اپنے رب سے عرض کیا:
’’خداوندا، میں تیرے ہی حضور اپنی بے بسی و بے چارگی اور لوگوں کی نگاہ میں اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں۔ اے ارحم الراحمین، تو سارے ہی کمزوروں کا رب ہے اور میرا رب بھی تو ہی ہے۔ مجھے کس کے حوالے کر رہا ہے؟ کیا کسی بیگانے کے حوالے جو مجھ سے درشتی کے ساتھ پیش آئے؟ یا کسی دشمن کے حوالے جو مجھ پر قابو پالے؟ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھ کسی مصیبت کی پروا نہیں، مگر تیری طرف سے عافیت مجھے نصیب ہو جائے تو اس میں میرے لیے زیادہ کشادگی ہے۔ میں پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے اس نور کی جو اندھیرے میں اجالا اور دنیا اور آخرت کے معاملات کو درست کرتا ہے، مجھے اس سے بچا لے کہ تیرا غضب مجھ پر نازل ہو یا میں تیرے عتاب کا مستحق ہو جاؤں۔تیری مرضی پر راضی ہوں یہاں تک کہ تو مجھ سے راضی ہو جائے۔ کوئی زور اور طاقت تیرے بغیر نہیں‘‘۔ (ابن ہشام، ج 2،ص 62)
&٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭
دل شکستہ و غمگین پلٹ کر جب آپ قرن المنازل کے قریب پہنچے تو محسوس ہوا کہ آسمان پر ایک بادل سا چھایا ہوا ہے۔ نظر اٹھا کر دیکھا تو جبریل علیہ السلام سامنے تھے۔ انہیں نے پکار کر کہا ’’ آپ کی قوم نے جو کچھ آپ کو جواب دیا ہے اللہ نے اسے سن لیا۔ اب یہ پہاڑوں کا منتظم فرشتہ اللہ نے بھیجا ہے، آپ جو حکم دینا چاہیں اسے دے سکتے ہیں‘‘۔ پھر پہاڑوں کے فرشتے نے آپ کو سلام کر کے عرض کیا ’’آپ فرمائیں تو دونوں طرف کے پہاڑ ان لوگوں پر الٹ دوں؟‘‘ آپ نے جواب دیا،’’ نہیں، بلکہ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ ان کی نسل سے وہ لوگ پیدا کرے گا جو اللہ وحدہٗ لاشریک کی بندگی کریں گے‘‘۔ (بخاری، بدء الخلق، ذکر الملائکہ، مسلم،کتاب المغازی۔ نسائی، البعوث)
&٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭
اس کے بعد آپ چند روز نخلہ کے مقام پر جا کر ٹھیر گئے۔ پریشان تھے کہ اب کیسے مکہ واپس جاؤں۔ طائف میں جو کچھ گزری ہے اس کی خبریں وہاں پہنچ چکی ہوں گی۔اس کے بعد تو کفار پہلے سے بھی زیادہ دلیر ہو جائیں گے۔ ان ہی ایام میں ایک روز رات کو آپ نماز میں قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے کہ جِنوں کے ایک گروہ کا ادھر سے گزر ہوا، انہوں نے قرآن سُنا،ایمان لائے، واپس جا کر اپنی قوم میں اسلام کی تبلیغ شروع کر دی، اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہ خوش خبری سنائی انسان چاہے آپ کی دعوت سے بھاگ رہے ہوں، مگر بہت سے جِن اس کے گرویدہ ہو گئے ہیں اور وہ اسے اپنی جنس میں پھیلا رہے ہیں۔ (تاریخی منظر، سورہ الاحقاف، تفہیم القرآن)