۔17 ستمبر یوم سقوط حیدرآباد

1218

 

میر حسین علی امام

۔17 ستمبر 1948ء کو ریاست مملکت حیدرآباد پر ہندوستان نے پولیس ایکشن کے نام پر جارحانہ قبضہ کرلیا تھا اور اس ریاست کو اپنا حصہ قرار دیا۔ اس طرح دیگر ریاستیں جوناگڑھ، مناودر، منگرول وغیرہ پر قبضہ کرلیا۔ بھوپال، پٹودی اور دیگر مسلم ریاستوں نے پھر بھارت سے الحاق کرلیا۔ ریاست حیدرآباد دکن جنوبی ہند کی سب سے بڑی ریاست تھی۔ دکن دراصل سنسکرت لفظ دکھنی تھا جس کے معنی جنوب کے ہیں۔ جنوبی ہند میں دکن میں حیدر آباد کیرالہ، مدراس، میسور، کرناٹک سبھی ریاستیں یا صوبے شامل تھے۔ حیدر آباد ریاست سب سے بڑی ریاست تھی۔ محمد بن تغلق نے شمالی ہند میں دہلی کے بجائے دیوناگر یعنی دولت آباد کو پایہ تخت بنانے کا ارادہ کیا لیکن طویل سفر اور جنگ کے بعد وہ وہاں ٹھیر نہیں سکا واپس دہلی چلا گیا۔ اس کے ایک سردار ظفر خان نے بہمنی شاہ گنگوی کا لقب اختیار کرکے پہلی اسلامی سلطنت بہمنی شاہی قائم کی۔ اس ریاست کے ایران کے صفوی خاندان سے بھی مراسم تھے۔ بہمنی سلطنت ایک علمی سلطنت تھی اس موضوع پر ڈاکٹر معین الدین عقیل نے ایک گراں قدر تصنیف بھی تحریر کی تھی۔ بہمنی سلطنت میں اٹھارہ حکمراں گزرے۔ دو سو سال حکومت کی تھی۔ بیدر اور گلبرگہ اس کے پایہ تخت تھے، بہمنی سلطنت کے بعد پانچ سلطنتیں قائم ہوئیں ان میں گولکندہ میں قطب شاہی سلطنت اہم سلطنت تھی اور اس نے بھی دو سو سال حکمرانی کی۔ سلطان محمد قلی قطب شاہ نے 1600 میں ’’حیدر آباد‘‘ شہر کی بنیاد ڈالی۔ یہ شہر 5 سال میں مکمل ہوا۔ اس کا تاریخی نام ’’فرتندہ بنیاد حیدر آباد‘‘ رکھا گیا۔ سلطان قلی قطب شاہ اہل تشیع تھے۔ سیدنا علیؓ کی عقیدت و احترام کی وجہ سے اس کا نام ’’حیدر آباد‘‘ دکن رکھا۔ ایک روایت ہے کہ ان کی بیوی بھاگ متی جب مسلمان ہوئیں تو سلطان قلی قب شاہ کی والدہ نے ان کو ’’حیدر محل‘‘ کا لقب رکھا۔ بھاگ متی کے عشق میں شہزادہ قلی قطب شاہ موسیٰ ندی پار کر کے دوسرے علاقے چلا گیا۔ والدہ نے منت مانی کہ شہزادہ زندہ آگیا تو ندی کے پار ایک نیا شہر بسائوں گی۔ غرض، سلطان قلی قطب شاہ کے عشق کا زوال نے حیدر آباد دکن کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔ سلطان قلی قطب شاہ پہلے صاحب کلیات شاعر، بادشاہ تھا۔ مولوی عبدالحق، ادا جعفری وغیرہ نے آپ کے حوالے سے تحقیقی مقالات تحریر کیے۔ پروفیسر محی الدین قادری ذاکر نے بھاگ متی پر کتاب تصنیف کی۔ یہ سب اہم تحقیقی کتابیں دہلی اور حیدر آباد کے چار سو سالہ علمی، ادبی سفر کی ابتدا کو پیش کرتی ہیں۔ قطب شاہ عہد میں چار مینار مکہ مسجد تعمیر ہوئیں۔ ہزارہا دکانیں چار مکان کی طرف تعمیر ہوئیں۔ حیدر آباد ایک بڑا تاریخی شہر بنا۔ سلطان قلی قطب شاہ نے اللہ تعالیٰ کی مناجات کی اور کہا ’’میرے اس شہر کو لوگاہ سے معمور رکھا اور اللہ تعالیٰ نے حیدر آباد میں پورے برصغیر کے علمی، ادبی، شاعر، ادیب، دانشور، اہل علم، اہل ہنر و فنون جمع کیے۔ 1726ء میں حیدر آباد دکن میں سلطنت آصفیہ کا قیام عمل میں آیا۔ مغل بادشاہ عالمگیر کی وفات کے بعد آصف جاہ اول قمرالدین سپہ سالار نے اپنی حکومت قائم کی۔ سلطنت آصفیہ کا رقبہ یورپ کے کئی ممالک سے بڑا تھا۔ آبادی بھی کئی ممالک سے زیادہ۔ اس کا اپنا سکہ Currency تھی۔ اس کا اپنا ریلوے نظام تھا۔ یہ ایک مالدار، خوشحال ریاست بن گئی اور 1857ء کے بعد پورے برصغیر سے علما، فضلا نے حیدر آباد دکن کو اپنا مستقرو مسکن بنالیا۔ نواب مرزا داغ دہلوی، جلیل مانک پوری، جوش ملیح آباد، مولوی عبدالحق، عبدالقدیر صدیق حسرت، توفیق الحکیم، عظیم طباطبائی، عبدالحلیم شرر، ظفر علی خان سبھی حیدر آباد آئے۔ نواب میر محبوب علی خان نے 1884ء کو فارسی کے بجائے اردو کو سرکاری زبان بنائی۔ علی گڑھ کالج، یونیورسٹی کے لیے، پنجاب یونیورسٹی کے لیے گراں قدر عطیات دیے۔ 1918ء میں میر عثمان علی خان نے جامعہ عثمانیہ قائم کی۔ جس میں اردو ذریعہ تعلیم تھی۔ اس کے دارالترجمہ میں علما، فضلا نے 400 سے زائد کتب کے تراجم کیے۔ میر عثمان علی خان نے علی گڑھ یونیورسٹی، انجمن حمایت اسلام، پنجاب یونیورسٹی غرض ہر مسلم علمی، تعلیمی، سماجی ادارے کے لیے خزانے کھول دیے۔ آپ کو ’’سلطان العلوم، کا لقب دیا گیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی کا پہلا چانسلر مقرر کیا گیا۔ ترجمہ کی کتب بہادر یار جنگ اکادمی، انجمن ترقی اردو، مقتدرہ اسلام آباد وغیرہ میں محفوظ ہیں۔ 1947ء پاکستان کے قیام کے بعد حیدر آباد دکن اور میر عثمان علی خان نے پاکستان کے لیے 20 کروڑ روپے کی امداد دی۔ سونے کی فراہمی کی۔ آپ کی امداد سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ واہ آرڈیننس فیکٹری، پاکستان ائر لائنز کا قیام عمل میں آیا۔ حکومت پاکستان کے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں دی گئیں۔
قائد اعظم کے انتقال کے 11 ستمبر 1948ء کے دوسرے دن بھارت نے 12 ستمبر 1948ء کو حیدر آباد پر حملہ کردیا اور 5 دن کی جنگ کے بعد 17 ستمبر 1948ء کو قبضہ کرلیا۔ میر عثمان علی خان کو معزول کرکے ’’راج پرمکھ‘‘ بنادیا گیا۔ حیدر آباد مسلمانوں کی تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا۔ بھارت نے 1956ء میں تین صوبوں میں تقسیم کردیا اورنگ آباد کو مرہٹہ، ممبئی میں، گلبرگہ کو کرناٹک میں، گولکندی، حیدر آباد کو آندھیرا میں شامل کردیا۔ اس طرح تین علاقائی صوبائی ثقافتوں میں تقسیم کردیا۔ 1950ء میں اردو کے بجائے جامعہ عثمانیہ میں انگریزی تعلیم رائج کردی۔ میر لائق علی کی کتاب ٹریجڈی آف حیدر آباد قطب الدین عزیز کی اے مرڈر آف دی اسٹیٹ، عزیز رضوی کی معاہدات کی خلاف ورزی اس موضوع پر اہم کتابیں ہیں۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل اور عمر خالدی کی سقوط حیدر آباد بھی اہم تصنیف ہے۔ حیدر آباد کے علمی، ادبی کارناموں، سرپرستی پر بے شمار کتابیں تحریر کی گئیں۔ وحیدہ نسیم کی ’’اورنگ آباد‘‘ اہم تصنیف ہے۔ دائود اشرف ماہر آرکیالوجسٹ نے مشاہرین اور علم سرپرستی پر کئی کتابیں تصنیف و تالیف کیں۔ پروفیسر شفقت رضوی کی فیضان دکن بھی ایک اہم تصنیف ہے۔ ’’پھول بن‘‘ نامی نے حیدر آباد سے پاکستان ہجرت کرنے والے شعرا کا تذکرہ مرتب کیا۔ ’’مجلہ عثمانیہ‘‘ جامعہ عثمانیہ کا رسالہ تھا اس کی ادارت مولوی عبدالحق اور مولوی وحید الدین سلیم نے کی تھی اس نے مخدوم محی الدین، سکندر وحید، عزیز احمد، اشفاق حسین، شیخ چاند، میکش وغیرہ اہم ادبی نام پیدا کیے۔ مجلہ عثمانیہ کراچی سے مصباح الدین شکیل، رشید شکیب، رضی الدین صدیقی وغیرہ نے بھی جاری کیا علم کے فروغ میں حصہ لیا۔
حیدر آباد دکن بغداد، غرناطہ، دہلی کا تسلسل تھا۔ مسلمانوں کی یہ عظیم تہذیب آج بھی دعوت فکر و نظر دیتی ہیں۔