جسٹس قاضی کیخلاف ریفرنس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا

228

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کرنے والے بینچ پراعتراض کے باعث تحلیل ہوگیا۔

 تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائزعیسی کے ریفرنس سے متعلق دائر آئینی درخواستوں پر جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے موکل کی ہدایت ہے کسی ذاتی فائدے کے لیے جوڈیشری پر کوئی حرف نہ آنے دیں، اس وقت پوری قوم کی نظریں اس کیس پر ہیں۔

وکیل منیر اے ملک کی جانب سے چیف جسٹس کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ چیف جسٹس نے عدالتی سال 2019 کے آغاز کی تقریب پر خطاب کیا، چیف جسٹس نے کہا کہ احتساب کے عمل سے غیر متوازن اور سیاسی انجینئرنگ کا تاثر مل رہا ہے، احتساب کا عمل جوڈیشل انجیئنرنگ کے لیے بھی استعمال ہو رہا ہے، میرے موکل کی ہدایت ہے کہ عدلیہ کا تشخص خراب نہیں ہونا چاہیے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک نے بینچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس بینچ میں کچھ ججز کو مقدمہ سننے سے انکار کر دینا چاہیے، کوئی جج اپنے کاز کا جج نہیں ہو سکتا۔منیر اے ملک نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبران کے علاوہ باقی ججز پر مشتمل فل کورٹ بنایا جائے، انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے،قانون کی حکمرانی کا حتمی دفاع عوام کرتے ہیں، جن ججز کے مفادات اس سے جڑے ہیں وہ اس بینچ کا حصہ نہ ہوں۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ کون سا جج متعصب ہوسکتا ہے جس پر منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ کوئی بھی جج متعصب ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیےکہ میں یہ باور کروانا چاہتا ہوں کہ اس عدالت کا کوئی بھی جج متعصب نہیں، کون سے عوامل سے جج کی جانبداری ثابت ہوتی ہے، اس عدالت کا ہر جج اپنی ذمہ داری آئین اور قانون کے مطابق ادا کرتا ہے، اس عدالت کے کسی جج کو کسی مقدمے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، جج کی جانبداری کا کہہ کر آپ غلط جانب جا رہے ہیں، ہم تعصب یا جانبداری پرمزید دلائل سننا چاہتے ہیں۔

منیر ملک نے اپنے دلائل میں کہا کہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد ہونا ضروری ہے،اعتماد نہ ہو تو انصاف نہیں ہوسکتا، جن ججز نے چیف جسٹس بننا ہے ان کی دلچسپی ہے، اس بینچ کے دو ججز ممکنہ چیف جسٹس بنیں گے، ان کا براہ راست مفاد ہے، چیف جسٹس بننے سے ان کی تنخواہ بڑھے گی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اس فیصلے کے مطابق جج بطور جج کسی کو نہیں جانتا، آپ کیسے تشریح کرسکتے ہیں کہ اس کیس میں متعصبانہ سوچ ہے، کوئی یہ نہیں جانتا کہ کل کوئی زندہ رہے گا، آپ کیسے آئندہ برسوں کی بات کرتے ہیں، آپ کو اداروں کو مضبوط کرنے کیلیے کھڑا ہونا چاہیے، آئندہ چار برس کے مفروضے پر بات نہ کریں، اگر دوران سماعت کوئی لچک دیکھیں تو ہمیں آگاہ کریں، شروعات میں بینچ پر سوال اٹھانا صحیح نہیں ہے، ججز کا ذاتی مفاد نہیں ہے، یہ باتیں صرف افواہوں کا دروازہ کھولیں گی، آپ کی بات مستقبل کی ہے جو بہت دور ہے، سماعت میں شفافیت بھی بینچ نے لانی ہے۔

اس موقع پر جسٹس فیصل عرب نے منیر اے ملک سے مکالمہ کیا کہ آپ اپنا موقف ثابت نہ کرسکے تو سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی جاری رکھے گی۔جسٹس قاضی کے وکیل نے کہا کہ میرے موکل کو سپریم کورٹ کے کسی جج پر ذاتی اعتراض نہیں، یہ سپریم کورٹ کی ساکھ اور وقار کا معاملہ ہے۔بعد ازاں عدالت نے منیر اے ملک کے دلائل پر 7 رکنی بینچ تحلیل کرتے ہوئے نئے بینچ کی تشکیل کا معاملہ چیف جسٹس پاکستان کو بھجوادیا۔