کشمیر کی بھارت کی غلامی سے آزادی: آج وگرنہ کبھی نہیں

312

غلام نبی بٹ

آج مقبوضہ کشمیر میں مسلمانان جموں و کشمیر نے بھارت کے ظلم و درندگی کے خلاف بھارت سے آزادی کے لیے تاریخی جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے بے مثال قربانیوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جو بحیثیت کلمہ گو ہمارے جسم کا ایک ٹکڑا ہے جبکہ بھارت نے امریکا، سلامتی کونسل دوسرے مغربی ممالک اور بعض مسلم ممالک کے تعاون سے کشمیر کو بھارت میں ضم کر کے ہماری حمیت اسلامی اور اسلامی بھائی چارے کو للکارا ہے لیکن افسوس تو یہ ہے کہ بھارت کے اس ناجائز غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام تک پہنچانے میں پاکستان اور آزاد کشمیر کے سابق خود غرض‘ امریکا اور مغربی ممالک کے زر خرید اور حکمرانوں کا بڑا دخل ہے جنہوں نے بھارت کے آئے روز کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی قبضہ اور بھارت کے ظلم و درندگی سے آنکھیں چرا رکھیں صرف زبانی جمع خرچ کی حد تک مسلمانان کشمیر سے یکجہتی کا اظہار کرتے رہے اور یکجہتی کے ایام سائے کی حد تک سرگرم رہے اور ساتھ ہی مسلمانان کشمیر کو بھی بے و خوف بنائے رکھا اور مزید طرہ یہ کہ آزاد کشمیر کی کرسی پر قبضہ کر کے اس کے لیے رسہ کشی کے ذریعہ برسر اقتدار آ کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہے قومی خزانہ کی لوٹ گھسوٹ اور اقربا پروری اور علاقائی تعصب کو بھرپور فروغ دیا۔ آزاد کشمیر کی کرسی پر قبضہ کرنے اور مسلمانان کشمیر کو بیوقوف بنانے کی صرف ایک مثال ملاحظہ فرمائیں۔ مجھے یاد ہے کہ 1970میں یحییٰ خان کے حکم پر یہاں بھی انتخابات کروائے گئے جن میں مسلم کانفرنس جس کے صدر سردار عبد القیوم خان (اللہ مغفرت فرمائے اور ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے) بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر صدارت کی کرسی پر براجمان ہوئے انتخابات میں کامیاب ہونے پر انہوں نے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے 1960 کی دہائی کے اوخر میں ایک عسکری تنظیم جس کا نام انہوں نے المجاہد فورس رکھا قائم کی اس تنظیم کی افتتاحی تقریب مظفرآباد کالج گرائونڈ (اب یونیورسٹی گرائونڈ میں ہوئی جس میں تنظیم کے سپریم کمانڈر سردار محمد عبد القیوم خان کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اس تنظیم کا کشمیر کی آزادی میں کیا اور کس طرح کا کردار رہا یہ آج تک منظر عام نہ آ سکا حالانکہ اسی عرصہ میں 1971 کی پاک بھارت جنگ ہوئی تھی بعد میں نہ معلوم یہ تنظیم مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی عملی مدد کیے بغیر اور ایک گولی چلائے بغیر پانی کے بلبلے کی طرح نظروں سے اوجھل ہو گئی حالانکہ اس تنظیم کے قیام کا واحد مقصد کشمیر کے بھارت سے آزادی اور اس کا پاکستان سے الحاق تھا۔
تقریباً نصف صدی گزرنے کے بعد جب مسلمانان مقبوضہ کشمیر کو ان کا پیدائشی حق خودارادیت دلوانے میں پاکستان، اقوام عالم، اقوام متحدہ اور امت مسلمہ کے کردار کی وجہ سے محروم رہے تو انہوں نے 1988 میں اپنے بل بوتے پر عسکری کارروائیوں کا آغاز کیا اس سے قبل 1965 میں پاکستانی افواج نے مقبوضہ کشمیر کی بھارت سے آزادی کے لیے عسکری کارروائی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے کئی علاقوں پر قبضہ کیا لیکن مغربی اقوام اور بالخصوص امریکا کے شدید دبائو کی وجہ سے پاکستان کو فتح کیے ہوئے علاقے خالی کرنے پڑے۔ جب مفتوحہ علاقے خالی کیے تو وہاں کے مسلمانوں پر بھارتی افواج نے ان کا عرصہ حیات تنگ کر دیا جس کے نتیجے میں لاکھوں مسلمان آزاد کشمیر اور پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اگرچہ مسلم کانفرنس اپنے آپ کو جہاد کشمیر کے لیے چمپئن گردانتی ہے لیکن اس موقع پر اور آج تک اس تنظیم کا کوئی کردار سامنے نہیں صرف زبانی جمع خرچ کے طور پر مگر مچھ کے آنسو بہانے اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کی حد تک لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتی رہی۔
آئیے جدوجہد آزادی کشمیر کی ماضی کی تاریخ پر سرسری نظر ڈالتے ہیں جب مقبوضہ کشمیر کے عوام نے اپنے بل بوتے پر بھارت کے خلاف عسکری اور گوریلا کارروائیوں کا آغاز کیا تو پاکستان اور آزاد کشمیر کی واحد سیاسی اور دینی جماعت جماعت اسلامی نے ان کی تحریک جہاد میں بھرپور معاونت کا اعلان کیا اس سلسلے میں نہ صرف مالی قربانیاں دیں بلکہ جماعت نے اپنے ہزاروں کارکنوں کو تحریک جہاد میں شرکت کرنے اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے شانہ بشانہ عسکری کارروائیوں کے لیے بھرپور مدد فراہم کی۔ جماعت اسلامی نے اس تحریک کو فرض عین سمجھتے ہوئے شرکت کی جبکہ پاکستان اور آزادکشمیر کی کسی بھی دوسری سیاسی یا دینی جماعت (الا ماشاء اللہ) کا اس تحریک جہاد میں کوئی کردار نہیں یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جسے مستقبل کا مورخ کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتا۔
(جاری ہے)
جماعت اسلامی کے ہزاروں کارکن تحریک جہاد میں شریک ہوئے اور مقبوضہ کشمیر کے قبرستان ان مجاہدین کی قبروں سے پر ہیں اس تحریک جہاد میں بھرپور شرکت کے بعد لا تعداد مجاہدین غازی بن کر گھروں کولٹے ان میں متعدد کتابوں کے مصنف اور عظیم اسکالر اور دانشور سید سلیم گردیزی معروف کالم نگار اور صاحب طرز ادیب معلم قوم ڈاکٹر راجا عبد الکریم‘ معروف معالج آصف انصاری‘ بھارتی فوجوں کو ناکوں چنے چبوانے والا عظیم کمانڈر سید ارشد بخاری المعروف شمشیر خان اور پروفیسر الف الدین ترابی کا فرزند ساجد ترابی و غیرہ شامل ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے اپنے کارکنوں کے علاوہ قائدین جماعت اسلامی کے لا تعداد عزیر و اقارب اس تحریک جہاد میں شریک ہو کر جام شہادت نوش کر چکے ہیں جن میں سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد مرحوم کے بھانجے نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم لیاقت بلوچ کے دو بھانجے اسسٹنٹ سیکرٹری پاکستان صفدر علی چودھری کا فرزند سابق امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر کونسل محمد رشید عبسائی مرحوم کے بھیجتے پروفیسر الف الدین ترابی مرحوم کا بھتیجا بطور مثال شامل ہیں لیکن حیران کن بات تو یہ ہے کہ پاکستان اور آزاد کشمیر کی کسی بھی دوسری سیاسی اور دینی طلبہ تنظیم کا اس تحریک جہاد میں قطعاً کوئی حصہ نہیں اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس طرح کے نام نہاد اور مفاد پرست اس تحریک میں جان قربان کرنا تو کجا ان کی یا ان کے قائدین کی نکسیر بھی نہیں پھوٹی۔ بہرحال اس تایخی حقیقت کو مقبوضہ کشمیر کے مسلمان بخوبی جانتے ہیں اور وہ نام نہاد ان قائدین کے دوغلے پن سے بخوبی آگاہ ہیں۔
جہاں تک جلسے جلوسوں اور مظاہروں کا تعلق ہے اس کی کسی حد تک ضرورت ہو سکتی ہے مگر تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو بخوبی آگاہی ہوتی ہے کہ جن ممالک نے اپنے اپنے سامراجی آقائوں سے آزادی حاصل کی انہوں نے اس طرح کے جلسے اور جلوسوں اور قرارداوں کا سہارا نہیں لیا بلکہ آزادی حاصل کرنے کے لیے لاکھوں جانوں کی قربانی دی بطور مثال الجرائر‘ سوڈان‘ ویتنام‘ افغانستان شامل ہیں کیا ان ممالک کے لوگوں نے جلسے جلوسوں مظاہروں اور ریلیوں اور مذاکرات کا سہارا لیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلہ کے حوالہ سے کوئی دوسرا ملک پاکستان کے ساتھ کھڑا نہیں۔ عملاً سب امریکا اور بھارت کے زر خرید اور فکری غلام ہیں او آئی سی بھی زبانی جمع خرچ کر رہا ہے چین اگرچہ ہمارے ساتھ ضرور ہے مگر وہ بھی کسی حد تک؟ اس کے بھی خطہ میں اپنے مفادات ہو سکتے ہیں اب لے دیکر مقبوضہ کشمیر کے مظلوم و مقہور مسلمان ہر طرف سے مایوس ہو کر پاکستان اور پاکستان کی بہادر افواج پر بھروسا کیے ہوئے ہیں لیکن پاکستان بھی غالباً امریکا کے دبائو میں آ کر کوئی فوجی کارروائی نہیں کر سکتا پاکستان کی بھی اپنی مجبوریاں ہیں دونوں ممالک کے درمیان جنگ تب ہی ممکن ہے جب بھارت پاکستان پر حملہ کر لے۔ ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال تب ہی شامل تصور ہے جب دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑ جائے لیکن ہم کو جنگ کرنی ہی نہیں صرف ایٹمی جنگ کی دھمکی ہی دینی ہے اس کا یہی مطلب لیا جائے گا کہ پاکستان سے اور کچھ تو نہیں ہو سکتا صرف آئے روز ایٹمی جنگ کی دھمکی دیتا رہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت جیسے سازشی اور مکار ہمسایہ سے کسی بھی وقت دراندازی اور دہشت گردی متوقع ہے اس لیے حکومت پاکستان کو فوری طور پر پورے ملک میں عام لام بندی کا اعلان کرنا چاہیے اور ملک کے تمام نوجوانوں اور تمام طلبہ و طالبات کی فوجی تربیت کا اعلان کرنا چاہیے نیز سرحدی اور ایل او سی کے علاقوں پر رہنے والوں کو فوری طور پر اسلحہ فراہم کرنا چاہیے ساتھ ہی تما م ریٹائرڈ فوجیوں کو حاضر سروس کیا جائے۔ بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگنی نہیں چاہیے۔
بہر حال ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی کوئی غیبی امداد فرمائے اور ان کو بھارت کے چنگل سے آزادی دلوانے کی کوئی سبیل پیدا کرے مگر ان کی مدد کی کوئی دوسری صورت نظر نہیں آتی ہماری یہ بھی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو بصیرت اور حکمت کی دولت عطا فرمائے۔