قرآن کے مطابق زندگی

1141

خرم مراد

اگر آپ پہلے ہی لمحے سے اس خدا کے آگے کامل سپردگی میں اپنے اندر تبدیلی لانا اور اپنی زندگی کی تعمیر نو کرنا شروع نہ کردیں جس نے آپ کو قرآن دیا ہے تو قرآن پڑھنے سے آپ کو بہت تھوڑا فائدہ ہوگا، آپ کے حصے میں نقصان اور پریشانی تھی، آسکتی ہے۔ اگر عمل کے لیے قوتِ ارادی اور کوشش نہ ہو تو قلب کی کیفیات، روح کی وجد آفرینی اور علم میں اضافے سے آپ کو کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ اگر قرآن آپ کے اعمال پر کوئی اثر نہ ڈالے اور آپ اس کے احکامات کی اطاعت نہ کریں اور جو وہ منع کرتا ہے، اس سے نہ رکیں تو پھر سمجھ لیجیے آپ قرآن کے قریب نہیں ہو رہے۔
قرآن کے ہر صفحے پر سر تسلیم خم کرنے، اطاعت کرنے، عمل کرنے اور تبدیلی لانے کی دعوت ہے۔ جو اس کے حکم تسلیم نہ کریں، انہیں کافر، ظالم اور فاسق کہا گہا ہے، (المائدہ 44-47)۔ جن لوگوں کو اللہ کی کتاب دی گئی ہے لیکن وہ نہ اس کو سمجھتے ہیں نہ اس پر عمل کرتے ہیں، انہیں ایسے گدھے قرار دیا گیا جو بوجھ لادے ہوئے ہیں مگر جو کچھ لادے ہوئے ہیں، نہ اس کو جانتے ہیں نہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں (الجمعہ 5)۔
قرآن کو ترک کر دینا، ایک طرف رکھ دینا اس کا مطلب ہے اس کو نہ پڑھنا، نہ سمجھنا، نہ اس کے مطابق زندگی گزارنا۔ اس کو ایک قصہ پارینہ سمجھنا جس کا اب کوئی کام نہیں رہا ہے۔ رسول اللہؐ نے قرآن کی پیروی پر زور دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آپؐ نے فرمایا:
’’میری امت کے بہت سے منافق قرآن پڑھنے والوں میں سے ہوں گے‘‘۔ (احمد)
’’وہ شخص قرآن کا سچا ماننے والا نہیں ہے جو اس کے حرام کیے ہوئے کو حلال سمجھتا ہے‘‘۔ (ترمذی)
صحابہ کرامؓ کے لیے قرآن سیکھنے کا مطلب، اس کو پڑھنا، اس پر غور و فکر کرنا اور اس پر عمل کرنا ہوتا تھا۔ روایت ہے کہ:
’’جو لوگ قرآن پڑھنے میں مشغول تھے، بتاتے ہیں کہ عثمان بن عفانؓ اور عبد اللہ بن مسعودؓ جیسے لوگ ایک دفعہ رسول اللہؐ سے دس آیات سیکھ لیتے تھے تو جب تک ان آیات میں علم اور عمل کے حوالے سے جو کچھ ہوتا تھا، اسے واقعی نہیں سیکھ لیتے تھے، آگے نہیں بڑھتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ انہوں نے قرآن اور علم ایک ساتھ سیکھا ہے۔ اس طرح بعض وقت وہ صرف ایک سورت سیکھنے میں کئی برس صرف کرتے تھے‘‘۔ (سیوطی: الاتقان فی علوم القران)
حسن بصریؒ کہتے ہیں: ’’تم نے رات کو اونٹ سمجھ لیا ہے جس پر تم قرآن کے مختلف مراحل سے گزرنے کے لیے سواری کرتے ہو۔ تم سے پہلے والے لوگ اسے اپنے مالک کے پیغامات سمجھتے تھے۔ رات کو اس پر غور و فکر کرتے تھے اور دن اس کے مطابق گزارتے تھے‘‘۔ (احیاء العلوم)
قرآن کے مطالعے سے آپ کے دل میں ایمان پیدا ہوتا چاہیے۔ اس ایمان کے مطابق آپ کی زندگی کو ڈھلنا چاہیے۔ یہ کوئی تدریجی مرحلہ وار عمل نہیں ہے جس میں آپ پہلے کئی برس قرآن پڑھنے میں، پھر اسے سمجھنے میں، پھر ایمان مضبوط کرنے میں صرف کریں۔ اور پھر اس کے بعد اس پر عمل کریں۔ جب آپ کلامِ الٰہی سنتے ہیں یا تلاوت کرتے ہیں تو آپ کے اندر ایمان کی چنگاری روشن ہو جاتی ہے۔ جب اندر ایمان داخل ہو جاتا ہے، تو آپ کی زندگی بدلنی شروع ہو جاتی ہے۔ جو بات آپ کو یاد رکھنی چاہیے وہ یہ کہ قرآن کے مطابق زندگی گزارنے کا سب سے زیادہ بنیادی تقاضا یہ ہے کہ آپ ایک بڑا فیصلہ کریں۔ دوسرے جو کچھ بھی کر رہے ہوں، معاشرے کے مطالبات کچھ بھی ہوں، آپ کے آس پاس کوئی بھی افکار غالب ہوں، آپ کو اپنی زندگی کا راستہ مکمل طور پر تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ عظیم قربانیاں چاہتا ہے۔ لیکن اگر آپ قرآن کو خدا کا کلام تسلیم کر کے اس پر ایمان لا کر چھلانگ لگانے کو تیار نہ ہوں تو آپ جو وقت قرآن کے ساتھ صرف کر رہے ہیں، اس کا کوئی اچھا نتیجہ سامنے نہیں آئے گا۔
پہلے قدم پر، پہلے ہی لمحے یہ بالکل واضح کر دیا گیا ہے کہ قرآن صرف ان لوگوں کے لیے ہدایت ہے جو خدا کی مرضی کے خلاف زندگی گزارنے کے نقصانات اور اس کی ناراضی مول لینے سے بچنے کے لیے عمل کرنے کو تیار ہیں اور جو نتائج رکھتے ہیں، یہی متقی ہیں۔ (البقرہ 2-5)