سرکاری سرپرستی میں قادیانیت کی تبلیغ

1000

عنایت علی خان
معاصر اخبار خبریں کی 8 جولائی 2019ء میں آمدہ ایک خبر کے مطابق پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی ساتویں جماعت کی انگریزی کتاب میں مقبوضہ کشمیر کو مقبوضہ یا متنازع لکھنے کے بجائے بھارت کا حصہ بتایا گیا ہے۔ نیز نویں جماعت کی مطالعہ پاکستان کی کتاب کے سابقہ ایڈیشن 2018-19 میں درج عبارت ’’حضرت محمدؐ کو آخری رسول ماننا عقیدہ رسالت کا لازمی جزو ہے‘‘ کو تبدیل کرکے اس طرح لکھا گیا ہے ’’اسوئہ رسول کو سرچشمہ ہدایت ماننا عقیدہ رسالت کا لازمی تقاضا ہے‘‘۔ گویا ایک منصوبے کے تحت پاکستانی مسلمانوں کی نئی نسل کو نصاب تعلیم کے ذریعے، جو حقیقت میں ذہن سازی کا سانچا ہوتا ہے، نہ صرف سیاسی تاریخ اور تشکیل پاکستان کی عظیم الشان اور فقید المثال تاریخ بلکہ دین اسلام کے اساسی عقیدے ختم رسالت کے معاملے میں بھی گمراہ کرنے کی مہم جاری و ساری ہے۔ اس مہم کی ابتدا تو عمران خان صاحب نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالتے ہی معاشی پلاننگ کا ادارہ میاں عاطف نامی اپنے دیرینہ قادیانی دوست کے سپرد کردیا تھا جس پر عوام کے شدید احتجاج پر جب انہیں اس منصب سے سبکدوش کیا گیا تو اُن کے دو اور ہم مزاج شرکاء کار نے احتجاجاً استعفا دے دیا۔ خس کم جہاں پاک۔ پھر جب ہمارے عمران خان امریکی صدر ٹرمپ کی طلب پر امریکا تشریف لے گئے تو معلوم ہوا کہ اُن سے قبل ایک پاکستانی قادیانی نے اپنے رہنما کے ہمراہ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی اور کہا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں بطور خاص قادیانیوں کے ساتھ متعصبانہ سلوک کیا جارہا ہے۔ جس پر ٹرمپ کی طرف سے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ قادیانی مسلمانوں جیسے نام رکھ کر مغربی ممالک میں خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں اور لوگ دین اسلام کے اساسی عقیدے ختم نبوت سے عدم آگہی کی بنا پر ان کے ہتھکنڈوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ طریق واردات یہ ہے کہ پہلے یہ غلام احمد قادیانی کو مبلغ دین کی حیثیت سے متعارف کراتے ہیں، پھر رفتہ رفتہ مسیح موعود اور پھر ظلی اور بروزی پیغمبر اور بالآخر نعوذباللہ من ذالک نبی برحق حضرت محمد مصطفیؐ سے بھی ایک درجہ برتر اس بنا پر ظاہر کرتے ہیں کہ نبی کاذب علیہ اللعنت پڑھا لکھا تھا جب کہ نبی اکرمؐ پر تو قرآن جیسی معجزانہ کتاب نازل ہوئی تھی اور یہ کاذب منشی کے امتحان میں فیل ہوا تھا۔ بہرحال چوں کہ مسلمانوں کا ازلی اور ابدی دشمن اسرائیل ان کی پشت پر ہے اور ان کا مرکز وہاں قائم ہے اس کی حمایت سے کم علم مسلمانوں اور عیسائیوں میں اُن کا کاروبار دجل فروغ پر ہے۔
گزشتہ دنوں عمران خان صاحب نے اپنی تقریر میں صحابہ کرام کے حوالے سے جو دل آزار باتیں کہیں غنیمت کو لوٹ مار کہا گیا اور جن کی پورے ملک میں شدید مذمت کی گئی۔ یہ اور بات ہے کہ موصوف نے اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے خدا و خلق سے معذرت نہیں چاہی۔ میں نے اُن کی اس جرأت کو ان کی کم علمی ہی پر محمول کیا تھا لیکن ہفت روزہ ختم نبوت (برائے یکم تا 17 اگست 2019ء) میں نبی کا ذب علیہ اللعنت کے ایک بیان پر نظر پڑی تو عمران خان کی کم علمی کے ڈانڈے اس مردود کے بیان سے ملتے نظر آئے۔ مذکورہ جریدے میں اس مردود کا یہ بیان شائع ہوا ہے (الفاظ کی مماثلت محل نظر ہے)
’’اس جگہ ہمیں یہ بھی افسوس سے لکھنا پڑا کہ جیسا کہ ایک طرف جاہل مولویوں نے اصل حقیقت جہاد کی مخفی رکھ کر ’’لوٹ مار‘‘ اور ’’قتل انسان‘‘ کے منصوبے عوام کو سکھائے اور اس کا نام جہاد رکھا‘‘۔
(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد ص9 روحانی خزائن، ج: 17)
واضح رہے کہ کاذبِ مردود خود اپنے بیان کے مطابق سرکارِ انگریزی کا کاشت کردہ پودا تھا اور اس نے انگریزوں پر اپنا احسان جتاتے ہوئے لکھا تھا کہ میں نے آپ کے لیے یہ کام انجام دیا ہے کہ جہاد کو حرام قرار دے دیا ہے۔ اس مردود نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ آج کے دور میں جہاد بالسیف نہیں بلکہ جہاد بالقلم کیا جائے گا جس پر علامہ اقبالؒ نے مذمت میں یہ اشعار کہے تھے ؎
فتویٰ ہے شیخ کا کہ زمانہ قلم کا ہے
دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارکرگر
ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر
حق سے اگر غرض ہو تو جائز ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ یورپ سے درگزر
نئے اور مدینے کی مثال بنائے جانے والے ملک کے وزیراعظم کی زبان ہی پر نہیں جیسا کہ اوپر کی سطور میں بیان کیا گیا نصاب میں بھی قادیانی عقیدے کو داخل کیا جارہا ہے۔ اس کی ایک مثال کے پی کے نصاب میں بھی نویں جماعت کی کتاب میں مال غنیمت کو ’’لوٹ مار‘‘ ہی کا نام دیا گیا ہے۔ کیا یہ سب اتفاق ہے کہ جو الفاظ نصابی کتاب کے ہیں وہی عمران خان صاحب کے ہیں۔ بات واضح ہے کہ منصور کے پردے میں خدا بول رہا ہے۔
لطف یہ ہے کہ ان قابل اعتراض الفاظ پر نہ عمران نے معذرت چاہی ہے نہ نصابی کتب کی اصلاح کی گئی ہے اور نہ اس صریح تبدیلی عبارت پر مصنفین و ناشرین سے باز پرس کی گئی ہے۔ تو کیا اسے واقعی سرکاری سرپرستی میں قادیانیت کے پرچار کی مہم کا حصہ سمجھا جائے۔ قوم جواب کی منتظر ہے۔