اسلام آباد لاک ڈائون کا تصفیہ!

339

یوں تو ساری اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے حق میں ہیں کیوں کہ وہ سمجھتی ہیں کہ ان کی حکومت نے ملکی معیشت کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے، گڈ گورننس نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ بیروزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے، صنعتیں بند ہورہی ہیں اور سرمایہ ملک سے فرار ہورہا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومت نے احتساب کو انتقام بنادیا ہے، صرف اپنے مخالفین کو پکڑا جارہا ہے اور حکومت کے بدعنوان عناصر دندناتے پھر رہے ہیں لیکن ان تمام ’’تحفظات‘‘ کے باوجود کوئی بھی سیاسی جماعت حکومت کو ہٹانے کے لیے تحریک چلانے کے حق میں نہیں ہے خاص طور پر دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی جن کے قائدین اس وقت جیل میں ہیں، نہیں چاہتیں کہ حکومت سے ٹکرا کر اپنی بارگیننگ پوزیشن خراب کی جائے۔ صرف حضرت مولانا فضل الرحمن ہی وہ سیاسی لیڈر ہیں جو عمران حکومت کو ہٹانے میں مخلص ہیں، وہ عمران خان کو یہودی ایجنٹ قرار دیتے ہیں اور اس کا برملا اظہار کرنے سے نہیں گھبراتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ حکومت برقرار رہی تو ملک کے داخلی حالات بگڑتے چلے جائیں گے اور اصلاح احوال کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی۔ اس لیے حکومت گرانے کے ون پوائنٹ ایجنڈے پر اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ چناں چہ حضرت مولانا نے اس کے لیے بڑی محنت کی۔ جب میاں نواز شریف اور آصف زرداری جیل سے باہر تھے تو مولانا نے ان سے کئی ملاقاتیں کیں اور انہیں یہ باور کرانے کی پوری کوشش کی کہ عمران حکومت کے خاتمے ہی میں ان کی نجات ہے، ورنہ وہ احتساب کے نام پر انتقام کی چکی میں پستے رہیں گے اور ایک وقت آئے گا کہ ’’ان کی داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں‘‘۔ دونوں لیڈروں نے مولانا کی رائے سے اتفاق کیا اور طے پایا کہ اے پی سی (آل پارٹیز کانفرنس) بلا کر اس ون پوائنٹ ایجنڈے کو حتمی شکل دی جائے۔ مولانا کی تجویز تھی کہ اسلام آباد کو دھرنے کے ذریعے لاک ڈائون کرکے کاروبار حکومت کو جام کردیا جائے۔ اس طرح حکومت مفلوج ہوجائے گی اور جو طاقتیں اسے لائی ہیں وہی اسے چلتا کریں گی۔ چند ماہ پہلے جو اے پی سی ہوئی اس میں یہی ایجنڈا زیر غور آنا تھا۔ اس اے پی سی میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں (مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی) کی اعلیٰ قیادت شریک ہوئی، بڑی دھواں دھار تقریریں ہوئیں لیکن کوئی لیڈر بھی مولانا کے تجویز کردہ دھرنے اور لاک ڈائون کی طرف نہیں آیا بلکہ اچانک چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ایشو کھڑا کردیا گیا اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ایسا ہاتھ ہوا کہ وہ دیکھتے رہ گئے۔ تاہم انہوں نے سوچا کہ ہمیں قدم بہ قدم آگے بڑھنا چاہیے۔ پہلے سنجرانی پھر عمران خان۔ انہوں نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو موثر بنانے میں بڑی سرگرمی دکھائی۔ یہ نمبروں کا کھیل تھا اور اپوزیشن کے پاس نمبر توقع سے زیادہ تھے لیکن جب خفیہ ووٹنگ ہوئی تو بازی اُلٹ گئی اور دونوں بڑی پارٹیوں کے ارکان ہی نے اس تحریک کو ناکام بنادیا۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ یہ ایشو محض مولانا فضل الرحمن کو غچہ دینے کے لیے کھڑا کیا گیا تھا ورنہ سنجرانی سے کسی کو کوئی تکلیف نہ تھی بلکہ پیپلز پارٹی ہی انہیں لانے کا سبب بنی تھی۔
اب ڈیڑھ ہفتے پہلے حضرت مولانا نے پھر اے پی سی کی ہے لیکن اب کی دفعہ دونوں بڑی پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت اس میں شریک نہیں ہوئی۔ ان پارٹیوں کے جو دوسری صف کے لیڈر اس نام نہاد اے پی سی میں آئے انہوں نے مولانا کو اپنے اصل موضوع کی طرف آنے ہی نہیں دیا اور سارا وقت کشمیر کے بحران پر بات ہوتی رہی۔ آخر میں دھرنے اور لاک ڈائون کا معاملہ پھر رہبر کمیٹی کے سپرد کردیا گیا جو اب اس انڈے پر بیٹھ کر اسے سیتی رہے گی۔ اس طرح حضرت مولانا کے ساتھ پھر ہاتھ ہوگیا لیکن مولانا بھی اپنی ہٹ کے پکے ہیں، کچھ بھی ہوجائے وہ اکتوبر میں اسلام آباد کو لاک ڈائون کرکے عمران حکومت سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے اپنی جماعت کی مجلس شوریٰ کا اجلاس طلب کرکے اس معاملے پر تفصیل سے غور کیا ہے، وہ ایک جہاندیدہ سیاست دان ہیں حالاتِ حاضرہ پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ پوری قوم اس وقت کشمیر کے بحران میں اُلجھی ہوئی ہے اور کشمیری عوام کی حالتِ زار پر شدید غم کا شکار ہے۔ سید گیلانی نے ایک بار پھر پاکستان اور مسلم امہ سے اپیل کی ہے کہ وہ کشمیریوں کی مدد کو آئیں اور انہیں بھارت کے چنگل سے چھڑانے کی کوشش کریں۔ امت مسلمہ کا جو حال ہے وہ ہم سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے طرزِ عمل سے دیکھ ہی رہے ہیں۔ اہل کشمیر کی ساری توقعات پاکستان سے وابستہ ہیں۔ حضرت مولانا نے اپنی مجلس شوریٰ میں کشمیر کی دھماکا خیز صورتِ حال پر بھی غور کیا ہے اور حکومت کی بزدلانہ کشمیر پالیسی پر کڑی تنقید کی ہے۔ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اسلام آباد کے ممکنہ لاک ڈائون میں کشمیر ایشو کو بھی ساتھ لے کر چلیں گے اور ختم نبوت کے مسئلے کو بھی اُجاگر کریں گے۔ اس طرح یہ لاک ڈائون کثیر المقاصد بن جائے گا۔ تاہم مولانا کے مداحوں کا کہنا ہے کہ حضرت مولانا کو ایک عملیت پسند لیڈر کی حیثیت سے اپنے لشکر کے ساتھ اسلام آباد کے بجائے ایل او سی کا رُخ کرنا چاہیے اور اسے روندتے ہوئے مظلوم کشمیریوں کی مدد کرنی چاہیے کہ یہی وقت کا تقاضا ہے۔ اگر اس عمل میں شہادت مل جائے تو کیا کہنے! حضرت مولانا سے بہتر اور کون سمجھ سکتا ہے کہ
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی!