معصوم لبنیٰ کا قاتل کون؟

262

 

عالمگیر آفریدی

محکمہ صحت نے مہمند سے تعلق رکھنے والی چھ سالہ معصوم بچی لبنیٰ کی سانپ کے کاٹے سے موت سے متعلق انکوائری میں ڈی ایچ او چارسدہ اور ایم ایس ٹی ایچ کیو شبقدر اسپتال سمیت چار ڈاکٹرز کو ان کے عہدوں سے تبدیل کرکے ڈی جی ہیلتھ سروسز کو رپورٹ کرنے کی ہدایت کردی ہے جبکہ متعلقہ افسران کیخلاف حکومت کو انضباطی کارروائی کی بھی سفارش کی گئی ہے۔ گزشتہ روز مہمند میں سانپ کے ڈسنے کے باعث جاں بحق ہونے والی بچی کی رپورٹ محکمہ صحت کو پیش کردی گئی ہے جس میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر چارسدہ، ایم ایس ٹی ایچ کیو اسپتال شبقد اور دو میڈیکل آفیسرز کو بچی کو سانپ کے کاٹے کا علاج نہ دینے کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے فوری طور پر عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے اس سلسلے میں محکمہ صحت نے اعلامیہ جاری کر دیا ہے جس میں مذکورہ افراد کیخلاف مزید کارروائی کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ دنوں ضلع مہمند کی تحصیل یکہ غنڈ کے گائوں حفیظ کور میں رات کے وقت چھ سالہ بچی لبنیٰ سانپ کے ڈسنے سے جاں بحق ہو گئی تھی۔ بچی کے چچا کے مطابق بچی کو جب یکہ غنڈ اسپتال پہنچایا گیا تو وہاں طبی عملہ نہ ہونے کے باعث لبنیٰ کو فوری طور پر شبقدر اسپتال پہنچایا مگر شبقدر اسپتال میں صرف میڈیکل ٹیکنیشن اور نرس ڈیوٹی پر تھے جنہوں نے بتایا کہ اسپتال میں انٹی سنیک وینم ویکسین دستیاب نہیں ہے۔ لہٰذا اسے فوری طور پر پشاور اسپتال پہنچایا جائے جب وہ بچی کو ایمبولینس میں ڈال کر پشاور روانہ ہوئے تو وہ راستے ہی میں دم توڑ گئی جس پر صوبائی وزیرصحت نے نوٹس لیتے ہوئے 24 گھنٹوں کے اندر اندر ڈی جی ہیلتھ سے رپورٹ طلب کی تھی۔ وزیر صحت کے مطابق ایک ماہ قبل تمام اسپتالوں کے میڈیکل سپرٹنڈنٹس کو مقامی مارکیٹ سے ویکسین خرید کر اس کی دستیابی کو مریضوں کے لیے یقینی بنانے کے احکامات دیے گئے تھے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ غفلت برتنے والے افسران اور میڈیکل سپرٹنڈنٹس کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی اور اب ان کے حکم پر متذکرہ بالا افسران اور ڈاکٹرز کا فوری تبادلہ کرتے ہوئے ان کے خلاف محکمانہ کاروائی کی ہدایت کی گئی ہے۔
چھ سالہ لبنیٰ کو فرسٹ ایڈ اور اینٹی اسنیک وینم ویکسین نہ ملنے کے باعث اس کے جاں بحق ہونے کی خبر حسب معمول پہلے سوشل میڈیا پر شیئر ہوئی لیکن چوںکہ سوشل میڈیا کئی وجوہات کے باعث پاکستان جیسے ملک میں اپنا بھرم کھو چکا ہے اور اس میڈیم کو ہمارے ہاں لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے اور معاشرے کو ہیجانی کیفیت سے دوچار کرنے کے لیے جس بے دردی سے استعمال کیا جارہا ہے اس لیے سنجیدہ اور فہمیدہ لوگوں کے لیے اس ذریعے سے حاصل ہونے والی معلومات اور اطلاعات پر یقین کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ البتہ جب لبنیٰ کی فوتگی کی خبر اس کی معصوم اور خوبصورت چہرے والی تصاویر کے ہمراہ قومی اور مقامی اخبارات میں شائع ہوئی تو تب نہ صرف اس اندوہناک خبر پر یقین کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا بلکہ جب سے اس معصوم کلی کی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دینے کی خبر اور اس سے بھی بڑھ کر اس کے معصوم چہرے کے حامل تصویر دیکھنے کو ملی ہے تب سے یوں لگ رہا ہے کہ گویا یہ ننھی پری یا تو ابھی ابھی سوئی ہے اور یا پھر اس نے معصومیت سے اپنی آنکھیں موند رکھی ہیں اور جب اس کو اس کی چاہت اورمحبت دل میں بسانے والے ماں باپ کی جانب سے آنکھیں کھولنے کی آواز دی جائے گی تو وہ کھلکھلاتے ہوئے معصوم ادا کے ساتھ اپنی بند آنکھیں کھول لے گی لیکن اس معصوم پری کی روح چوںکہ پرواز کر چکی ہے اس لیے اب نہ تو یہ اپنی بند آنکھیں کھول سکے گی اور نہ ہی اب کبھی اس کے غمزدہ والدین اور دیگر قریبی عزیز واقارب اس پھول جیسی معصوم بچی کی روشن آنکھوں کو پھر سے دیکھ سکیں گے۔ ہمارے ارد گرد مختلف واقعات اور حادثات کے جہنم زار جس میں ہم روز اپنی آنکھوں سے ہرعمر اور ہر جنس کے افراد کی لاشوں کے انبار دیکھ کر اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ اب ان واقعات سے ہمارے دلوں میں نہ تو کوئی ملال پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی ہماری جبینوں پر ان دردناک اور المناک واقعات سے کوئی شکن پڑتی ہے لہٰذا ان کربناک حالات میں دور دراز کے ایک قبائلی ضلعے کی ایک گم نام بستی حفیظ کور کی رہائشی ایک چھ سالہ معصوم بچی کی سانپ کے ڈسنے کے باعث واقع ہونے والی موت کی شاید بہت سارے دیدہ دلیروں اور بزرجمہروں کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہوگی لیکن اس اکیسویں صدی میں جب لوگ چاند اور مریخ پر بسنے کی تیاریاں کر رہے ہیں ایسے میں ہماری ایک معصوم کلی کا محض ایک معمولی جان بچانے والی ویکسین کا صوبے کے دو بڑے اسپتالوں میں عدم دستیابی اور موقعے پر متعلقہ ڈاکٹرز کی عدم موجودگی کے باعث اپنی جان کی بازی ہارنا یقینا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ننھی لبنیٰ کی اس اچانک اور حادثاتی موت جسے قتل کہنا بے جا نہیں ہوگا کا ذمے دار آخر کون ہے۔ کیا اس جانکاہ واقعے کا ازالہ متعلقہ اسپتالوں کے میڈیکل سپرٹنڈنٹس اور ڈی ایچ اوز کے تبادلوں یا معطلیوں سے ممکن ہے۔ کیا ماضی میں اسی طرح کے واقعات میں ملوث حکام کے خلاف اب تک کوئی ایسی کاروائی ہوئی ہے جو دوسروں کے لیے نشان عبرت بن سکیں جس کا جواب یقینا نفی میں ہے لہٰذا ہمیں اپنی نااہلی تسلیم کرتے ہوئے سب سے پہلے اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔