کراچی تباہ ، ذمے دار کوئی نہیں

447

کراچی برسات اور عید قرباں سے قبل بھی کچرے تلے دبا اور سیوریج کے پانی میں ڈوبا ہوا تھا اور عرف عام میں کچراچی کے نام سے پکارا جانے لگا تھا مگر برسات اور عید قرباں نے تو تباہی پھیر دی ہے ۔ اس وقت کراچی ایک تعفن زدہ سڑتے ہوئے کچرے کے ڈھیر کا منظر پیش کررہا ہے جس میں جگہ جگہ جانوروں کی آلائشیں بھی موجود ہیں ۔ ان آلائشوں میں اب کیڑے پڑ چکے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی ہر گلی کوچے اور اہم شاہراہ سیوریج کے پانی میں ڈوبی ہوئی ہے ۔ اس میں کراچی کے پوش علاقوں یا کچی آبادی کی کوئی تخصیص نہیں ہے بس یہ کہا جاسکتا ہے کہ پوش علاقوں میں صورتحال اتنی بہتر ہے کہ ناک پر کپڑا رکھے بغیر گزرا جاسکتا ہے اور دیگر علاقوں سے گزرنا بھی مشکل ہے ۔ کون سا اسکول یا کھیل کا میدان ہے جس میں گزشتہ برسات کا پانی سیوریج کے پانی کی آمیزش کے ساتھ ابھی تک موجود نہیں ہے ۔ اس نے کراچی میں خوفناک صورتحال پیدا کردی ہے۔شہر میں صفائی کی بنیادی ذمہ داری ضلعی بلدیات کی ہے ۔ اہم شاہراہوں کی صفائی کی ذمہ داری بلدیہ عظمیٰ کراچی کی ہے ۔ اسی طرح گلی کوچوں میں سیوریج کے نظام کو بحال کرنے کی ذمہ داری ضلعی بلدیات ہی کی ہے اور اہم شاہراہوں پر سیوریج کے نظام کو درست رکھنا واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی ہے ۔ کراچی میں صرف ضلعی بلدیات ہی مصروف عمل نہیں ہیں بلکہ یہاں پر کنٹونمنٹ کے زیر انتظام علاقے بھی ہیں ۔ ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ چونکہ کنٹونمنٹ کے علاقے فوجی انتظامیہ کے تحت ہوتے ہیں ، اس لیے شاید وہاں پر کرپشن کا تناسب کم ہوگا اور صفائی ستھرائی کی صورتحال بہتر ہوگی ۔ بدقسمتی سے کنٹونمنٹ کی صورتحال ضلعی بلدیات سے زیادہ بدتر ہے ۔ کچرے کو کچرا کنڈی سے اٹھا کر لینڈ فل سائیٹ تک پہنچانا سندھ سولڈ ویسٹ منیجمنٹ کی ذمہ داری ہے جو حکومت سندھ کے ماتحت ادارہ ہے ۔ شہر کی ساری شاہراہیں کچرے تلے دبے ہونے کی ذمہ داری سندھ سولڈ ویسٹ منیجمینٹ پر ہی آتی ہے ۔ اس طرح سے کراچی کو تباہ کرنے کی ذمہ داری متحدہ قومی موومنٹ کے زیر انتظام بلدیاتی اداروں اور پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کے زیر انتظام اداروں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور سندھ سولڈ ویسٹ منیجمنٹ پر براہ راست عاید ہوتی ہے ۔ اپنے پورے دور میں میئر کراچی اور ان کے ساتھ ضلعی بلدیات کے ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے سربراہان نے سوائے فنڈز کھانے کے کچھ کام نہیں کیا اوراختیارات کی کمی کا رونا روتے رہے ۔ کوئی ایک لمحے کو یہ جواب دینے کو راضی نہیں ہے کہ ضلعی بلدیات اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے تحت ملازم خاکروبوں اور کنڈی مینوں سے کام لینے میں کون سے اختیارات کی کمی مانع تھی ۔اب جب بلدیاتی انتخابات قریب آگئے ہیں اور پانی سر سے اوپر ہوگیا ہے تو میئر کراچی وسیم اختر بحریہ ٹاؤن کے ڈمپر اور دیگر مشینری لے کر کراچی میں دکھاوے کے کام کے لیے آگے بڑھے ہیں ۔ لیکن اب عوام بھی انہیں اچھی طرح سے پہچان چکے ہیں ۔ منگل کو ملیر کے علاقے سعودآباد سے جس طرح وہاں کے باسیوں نے وسیم اختر کو بے عزت کرکے نکالا ، اس سے انہیں اپنی کارکردگی کا اندازہ ہوجانا چاہیے ۔ اسی طرح سندھ میں برسراقتدار پیپلزپارٹی پہلے دن سے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں صرف ٹینکر مافیا کے ذریعے مال کمانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے تو دوسری جانب نجی کمپنیوں کو کچرا اٹھانے کا ٹھیکا دے کر کروڑوں روپے ہڑپ کررہی ہے ۔ اب کراچی تباہ حال ہے تو دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پر الزام تراشی کا کھیل کھیل رہی ہیں ۔ تحریک انصاف کے وفاقی وزیر جہاز رانی اور بحری امور علی زیدی بھی کراچی کی صفائی کا نعرہ بلند کرکے میدان میں اتر آئے ہیں ۔ وہ کئی اداروں سے براہ راست فنڈز لے کر کراچی کو صاف کرنے کے نام پر مزید گند پھیلانے کا موجب بن رہے ہیں ۔ ندی نالوں سے کچرا نکال کرحسب معمول وہیں سڑک کنارے ڈالا جارہا ہے تو کبھی ڈمپروں کے ذریعے الکرم اسکوائر لیاقت آباد کے سامنے فلائی اوور کے نیچے ڈالا جارہا ہے اور کبھی علاقے کے پارکوں یا کھلے میدانوں میںتحریک انصاف ، پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ مل کر ایک دوسرے پر بازاری زبان استعمال کرتے ہوئے وہی گند اور کیچڑ ایک دوسرے پر اچھال رہی ہیں جس کے تلے کراچی دبا ہوا ہے ۔ اب کراچی کے شہریوں کو ایک اور مصیبت کا سامنا ہے اور وہ ہے اس کیچڑ ، کچرے اور سیوریج کے پانی کا منطقی نتیجہ یعنی اب پورا شہر وبائی بیماریوں کا شکار ہوگیا ہے جس میں ملیریا ، دمہ ، آشوب چشم ، یرقان ، ہیپاٹائٹس بی اور سی ، مختلف جلدی بیماریاں ، ڈائریا، گیسٹرو اور دیگر بیماریاں شامل ہیں ۔ اس وقت کراچی کا جو حال ہے اس کی مثال صرف اور صرف جنگ زدہ شام اور یمن کے شہروں ہی سے مل سکتی ہے ۔ اس پوری صورتحال میں تو میئر ، ضلعی بلدیات کے سربراہان ، بلدیاتی افسران ، وزیر اعلیٰ ، سیکریٹری اور دیگر بیوروکریسی کے خلاف مقدمہ چلا کر انہیں مثالی سزائیں دی جانی چاہییں ۔ علی زیدی کے وڈیو کلپ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا رویہ نفسیاتی مریض سے مختلف نہیں ہے ۔ اگر تحریک انصاف کراچی میں کام کرکے شہریوں کے دل ہی جیتنا چاہتی ہے تو کسی معقول فرد کو یہ ٹاسک دیا جائے اورجن افراد پر اس کی ذمہ داری عاید ہوتی ہے ، ان کے خلاف موثر تادیبی کارروائی کی جائے ۔