ٹیکس در ٹیکس کی منفی پالیسی سے صنعت و تجارت معطل ہو گئی ، فاروق شیخانی

235

حیدرآباد (کامرس ڈیسک) حیدرآباد چیمبر آف اسما ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر محمد فاروق شیخانی نے کہا ہے کہ حکومت کے بیورو کریسی پر انحصار کے تحت بنائی گئی پالیسیاں ملکی صنعت و تجارت کے لیے زہر قاتل ثابت ہوئی ہیں جن کے سبب صنعت و تجارتی سرگرمیاں زیادہ تر معطل ہوکررہ گئی ہیں۔ ایکسپورٹ اور امپورٹ پر حکومتی ٹیکس در ٹیکس لگانے کی منفی پالیسیوں اور اسٹیک ہولڈرز پر عدم اعتماد کرکے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے شعبوں سے تجاویز طلب کی گئیں لیکن اُن پر کچھ فیصد ہی عمل ہوا اور کسی اسٹیک ہولڈر کو اعتماد میں لیے بغیر بجٹ منظور کردیا گیا۔ بعد ازاں جب بجٹ پر احتجاج سامنے آیا تو صنعتکاروں کے نمائندگان سے وزیر اعظم نے ملاقات کی لیکن اُس کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہوا اور زیرو ریٹنگ ختم کر کے 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کردیا گیا اور اِس طرح ملکی صنعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ حکومت نے ایف بی آر کے صوابدیدی اختیارات کو حسب وعدہ واپس نہ لیا، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی روزانہ کی بنیاد پر قدر کم ہونے نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور درآمدات و برآمدات پر کافی منفی اثرات مرتب ہوئے اور تجارتی سرگرمیاں تقریباً معطل ہوکر رہ گئی ہیں۔ حکومت نے اوگرا، نیپرا اور اسٹیٹ بینک کو فری ہینڈ دے کر بجلی گیس اور تیل کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کردیا جو صنعت و تجارت کی تنزلی کا باعث بنا۔ حکومت نے روپے کی قدر میں بے پناہ کمی کر کے امتحان میں ڈال دیا ہے کیونکہ غیر ممالک ہمارے ملکی معروضی حالات سے واقف ہیں اور اُنہوں نے تازہ ڈسکائونٹ کا مطالبہ کردیا جبکہ کچھ ملکی شخصیات اِس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ روپے کی قدر میں کمی برآمدات میں سود مند ہوگی جو کہ خام خیالی کے سواء کچھ نہیں۔ امپورٹ اور ایکسپورٹ دو الگ الگ چیزیں ہیں اور اِن میں بے پناہ فرق ہے لیکن امپورٹ پر 17 فیصد ریگولرٹی ڈیوٹی عائد کردی گئی ہے جس سے امپورٹ کو بہت نقصان پہنچا ہے اِس کی وجہ سے خام مال کی کمی ہے اور ملکی صنعت معطل ہوگئی ہے جس سے ایکسپورٹ بھی گھٹ گئی ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ ایک سالہ تجربہ کی روشنی میں دوبارہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کے لیے صنعتکاروں و تاجروں کے اصل نمائندوں سے اعلیٰ پیمانے پر مشاورت کے بعد اپنی ٹیکس پالیسیوں کو تبدیل کرے تاکہ ملکی صنعت و تجارت ترقی کرے اور ملک کو زرمبادلہ کے ذخائر ملتے رہیں جو ملک کی اہم ترین ضرورت ہے ورنہ قرضوں پر انحصار کر کے قوم کو قرض دار بناتے چلے جانا دُرست عمل نہ ہوگا جو ایک اچھی مثالی حکومت کی خاصیت نہیں ہے۔ حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے سینئر نائب صدر و کنونیئر لاء اینڈ آرڈر سب کمیٹی سلیم الدین قریشی اور کنونیئر بلدیاتی اَمور سب کمیٹی محمد الناصر نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ موجودہ بارشوں کے دوران پولیس نہایت مستعد اور چاک و چوبند رہی اور اُنہوں نے بارشوں کے دوران لاء اینڈ آرڈر کو اعلیٰ پیمانے پر کنٹرول کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر ٹریفک جام سے نمٹنے کے لیے بہترین خدمات انجام دیں اور ٹریفک کی روانی کو کامیاب بنایا بلکہ عوم کی گاڑیوں کو بھی پانی سے نکالنے میں مدد کی جس پر ایس ایس پی حیدرآباد سرفراز نواز شیخ اور دیگر ماتحت افسران کی کارکردگی کو بزنس کمیونٹی سرہاتی ہے ۔ جبکہ حیسکو اور بلدیاتی ادارے اپنے فرائض کی انجام دہی میں مکمل طور پر ناکام رہے جس کی وجہ سے نشیبی علاقوں میں اَب تک بارش اور سیوریج کا پانی کھڑا ہے اور سڑکوں اور لوگوں کی قیمتی عمارات کو نقصان پہنچا رہا ہے اور عوام کی زندگی اجیرن بنائے ہوئے ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ حیسکو اور بلدیاتی اداروں کی ناکامی سے حیدرآباد شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوتا جارہا ہے اور گندے پانی اور کچرے کے ڈھیر ہر طرف اُن کی کارکردگی کی داستان بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اُنہوں نے وفاقی وزیر پاور و انرجی عمر ایوب خان، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور وزیر بلدیات سندھ ناصر حسین شاہ سے درخواست کی ہے کہ وہ حیدرآباد کا دورہ کر کے یہاں کی گمبھیر صورتحال کا اَزخود جائزہ لیں اور حیسکو اور بلدیاتی اداروں کے افسران کے خلاف انضباطی کارروائی کرتے ہوئے حیدرآباد کو اُن کے چنگل سے آزاد کرائیں اور صورتحال کو کنٹرول کرائیں۔