شہر کراچی سڑ رہا ہے

541

کراچی کے نا خدائوں نے شہر کو تعفن اور بد بو کا مرکز بنا کر رکھ دیا ہے ۔ بس اسی بات کی کمی رہ گئی تھی ۔ پانی و بجلی سے محروم شہر اب سڑنے لگا ہے ۔ جگہ جگہ آلائشوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں ۔ عید کو گزرے آج پانچواں دن ہے لیکن بلدیاتی حکومت ، بلدیاتی ادارے اور اس کی تمام ڈی ایم سیز اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ نام کا ادارہ جو نجانے کہاں ہے اور کیا کرتا ہے ، سڑکوں ،گلی محلوں سے آلائشیں اٹھانے میں بری طرح ناکام رہے ۔ یہ آلائشیں سڑ گئی ہیں جس کی وجہ سے سانس لینا تک محال ہو گیا ہے ۔عوام کا سانس بھی بند کر دینا شاید حکمرانوں کا مطمح نظر ہے ۔ اس صورتحال میں امراض پھوٹ پڑنے کا خدشہ ہے اور یہ ایک نئی مصیبت شہریوں پر منڈلا رہی ہے ۔کہیں سے بھی گزر جائو فضا میں پھیلے ہوئے شدید تعفن سے بچا نہیں جا سکتا ۔ سنگم گرائونڈ میں آلائشوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے ۔ بلدیہ وسطی، کورنگی ، شرقی ، جنوبی اور غربی میں صورتحال ابتر ہے ۔ وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ اور میئر کراچی ان علاقوں میں ناک پر رومال رکھے یا خوشبوئیں چھڑکے بغیر 10منٹ تک سانس لے کر دکھائیں ۔ بارشوں کا پانی اب تک جگہ جگہ کھڑا ہوا ہے اوراب اس میں قربانی کے خون کی آمیزش اور جانوروں کی باقیات سڑنے سے صورتحال بد ترین ہو گئی ہے ۔ اتنا ہی نہیں لینڈ فل سائٹ کے راستے خراب ہونے سے شاہراہوں اور محلوں سے کچرا اٹھانے کا کام بند پڑا ہوا ہے ۔ لینڈ فل سائٹ جام چاکرو اور گوند پاس پر آلائشوں کی وجہ سے داخلی اور خارجی راستے بند ہو گئے ہیں ۔ پھسلن کی وجہ سے کچرا لے جانے والے ڈمپر اور ٹرک پھنس گئے ہیں ۔ کراچی میں یومیہ8سے9 ہزار ٹن کچرا اٹھایا جاتا ہے اور باقی 4 ہزار ٹن نظر انداز کر دیا جاتا ہے لیکن منگل کی شام سے جمعہ تک کچرا اٹھانے کا کام بند رہا جس سے ہر طرف گندگی پھیلی ہوئی ہے ۔ میئر بلدیہ اور وزیر بلدیات ایک عرصے سے ایک دوسرے پر الزامات عاید کر رہے ہیں ۔ وزیر بلدیات نے بڑا تیر مارا کہ جمعہ کو ایک کمیٹی قائم کر دی جو آلائشیں نہ اٹھانے اور شہر کو گندگی کے حوالے کرنے کے ذمے داروں اور اسباب کا تعین کرے گی ۔ شہریوں کو خوش ہو جانا چاہیے کہ سندھ حکومت صورتحال سے بے خبر نہیں اور اب کمیٹی بن گئی ہے جو چند دن میں یہ ضرور معلوم کر لے گی کہ خرابی کی جڑ کہاں ہے ۔ بس اس کے بعد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ۔ امکان یہی ہے کہ ذمے داری بلدیاتی اداروں پر ڈالی جائے گی اور میئرکراچی نے کب سے ہر ذمے داری سے ہاتھ اٹھائے ہوئے ہیں کہ ہمارے پاس تو اختیارات ہیں نہ پیسا ۔ لیکن پھر بھی وہ اپنا منصب چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں ۔