اذکار مسنونہ کی اقسام

709

ابن تیمیہؒ

فرائض کے بعد کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ اس کا کْلّی جامع اور مفصل جواب تو ممکن نہیں، جس سے ہر ایک شخص کے حق میں افضل الاعمال کا تعین ہوسکے، کیونکہ باعتبار قدرت ومناسبت اوقات لوگوں کے حالات مختلف ہیں، اس اختلاف کے لحاظ سے افضل العمل بھی ان کے حق میں مختلف ہوگا تاہم اس کے متعلق جو مجمل جواب دیا جاسکتا ہے اور جس پر ان لوگوں کا اتفاق ہے جو اللہ کی ذات اور اس کے اوامر کا علم رکھتے ہیں یہ ہے کہ ہر حالت میں اللہ کا ذکر پابندی سے کیا جائے۔ یہ بہترین عمل ہے جس میں بندہ اپنے نفس کو مشغول رکھ سکتا ہے۔ اس کی تائید میں ابو ہریرہؓ کی حدیث وارد ہے جسے مسلم نے روایت کیا ہے :
’’مُفَرِّدُون‘‘ سبقت لے گئے ہیں، صحابہؓ نے عرض کیا یارسول اللہ! مُفرّدون کون لوگ ہیں؟ فرمایا: وہ مرد یا عورتیں ہیں جو اللہ کو کثرت سے یاد کرتے ہیں۔ (مسلم)
ابوداؤد نے ابو درداء سے اس طرح روایت کیا ہے:
کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتلاؤں جو سب اعمال سے بہتر ہے اور تمہارے مالک کے ہاں سب سے زیادہ پاکیزہ اور تمہارے درجوں کو سب سے زیادہ بلند کرنے والا اور سونے چاندی کی خیرات کرنے سے بھی بہتر ہے اور اس عمل سے بھی بہتر ہے کہ دشمنان اسلام سے تمہارا مقابلہ ہو، پھر تم ان کی گردنیں مارو اور وہ تمہاری گردنیں ماریں (یعنی جہاد) صحابہؓ نے عرض کیا، کیوں نہیں، یارسول اللہ! ضرور بتلائیے۔ فرمایا وہ اللہ کا ذکر ہے۔ (ابن ماجہ، سنن ابی داؤد میں یہ حدیث نہیں ملی، مترتِب)
اللہ تعالیٰ کے ذکر کی فضیلت میں قرآنی اور ایمانی دلائل بکثرت ہیں جو بصیرت قلبی، روایت اور استدلال سے تعلق رکھتے ہیں۔
اَذکارِ مسنونہ کی تین قِسمیں ہیں:
ادنیٰ درجہ ذکر کا یہ ہے کہ انسان ان اذکارِ ماثورہ کو لازمی طور پر اپنا معمول بنالے جو علم اور نیکی کی تعلیم دینے والے اور متقین کے امام سیدنا محمدؐ سے مروی ہیں ان کی تین قسمیں ہیں:
1۔ اذکار واتب یعنی جن کے اوقات مقر ر ہیں، جیسا کہ شروع دن میں پچھلے پہر خوابگاہ میں لیٹنے کے وقت نیند سے بیدار ہونے کے وقت اور نمازوں کے بعد کے اذکار ہیں۔
2۔ وہ اذکار جو خاص خاص امور مثلاً کھانے پینے، پہننے، جماع کرنے، گھر مسند اور بیت الخلا میں داخل ہونے اور نکلنے اور بارش اور گرج وغیرہ کے وقت پڑھے جاتے ہیں، ان دونوں قسم کے اذکار کے متعلق کتابیں لکھی گئی ہیں جو کہ ’’عمل یوم و لیلہ‘‘ کے نام سے موسوم ہیں۔ یعنی وہ کتابیں جن میں دن اور رات کے اذکار درج ہیں۔
3۔ وہ اذکار جو مطلق بلاقید وقت پڑھے جاسکتے ہیں کسی خاص وقت کے ساتھ مقید نہیں، ان میں سب سے افضل لَا الٰہَ اِلّاَ اللہْ ہے لیکن کبھی ایسے حالات پیش آجاتے ہیں کہ باقی اذکار مثلاً: سْبحَانَ اللہِ وَالحَمدْ لِلہِ وَاللہْ اَکبَرْ وَلاَ حَولَ وَلاَ قْوّۃَ اِلآَ بِاللہِ۔ لَا اِلٰہَ اِلآَ اللہْ سے افضل ہو جاتے ہیں پھر یہ بھی جاننا چاہیے کہ ہر بات جو انسان کو اللہ کے قریب کر سکتی ہے خواہ وہ زبان کا قول ہو یا دل کا تصور، مثلاً علم سیکھنا اور سکھانا، نیکی کا حکم کرنا اور بدی سے روکنا، یہ سب اللہ کے ذکر میں داخل ہیں، یہی وجہ ہے کہ جو شخص فرائض کے ادا کرنے کے بعد علم نافع یعنی دین یا دین سے تعلق رکھنے والے علم کی جستجو میں مشغول ہو۔ یا ایسی مجلس منعقد کرے جس میں بیٹھ کر وہ فقہ پڑھے یا پڑھائے جس کا نام اللہ اور رسولؐ نے فقہ رکھا ہے تو یہ بھی بہترین ذکر الٰہی ہے۔ اور اگر افضل اعمال کی تعین میں یہ وسعت دی جائے تو غور کے بعد تجھے معلوم ہو جائے گا کہ متقدمین کے اقوال میں جو اس بارے میں وارد ہیں کوئی بڑا اختلاف نہیں۔