مذہب‘ تاریخی شعور اور مفادات

906

خورشید ندیم نے اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھا ہے کہ پتا نہیں وہ خود بدل رہے ہیں یا ان کا تاریخی شعور بدل رہا ہے۔ اس کی مثال انہوں نے یہ دی ہے کہ کسی زمانے میں وہ جنرل ضیا الحق کو اپنا ’’ہیرو‘‘ سمجھتے تھے اور ذوالفقار علی بھٹو ان کے نزدیک ’’وطن‘‘ تھے، مگر اب انہیں جنرل ضیا الحق ولن اور بھٹو ہیرو لگنے لگے ہیں۔ خورشید ندیم کے بقول ایسا صرف انہی کے ساتھ نہیں ہورہا۔ ان کے بقول جاوید ہاشمی بھٹو کے ستائے ہوئے ہیں وہ جنرل ضیا الحق کی کابینہ کا حصہ تھے مگر اب وہ کہتے ہیں کہ بھٹو کی پھانسی ایک ’’جبری فیصلہ‘‘ تھی۔ (روزنامہ دنیا، 18 جولائی 2019ء)
ہم پورے وثوق کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ جس شخص نے مولانا مودودی کی چار بنیادی کتب کا ٹھیک طرح مطالعہ کرلیا ہو، جو اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے نظام تربیت سے گزر چکا ہو مگر اس کے باوجود اس کی رال جنرل ضیا الحق، الطاف حسین، ایم کیو ایم، میاں نواز شریف، نواز لیگ اور عمران خان پر ٹپکتی ہو اس کے بارے میں کیا کہا جائے۔ بدقسمتی سے جاوید ہاشمی ایسے ہی شخص ہیں۔ وہ کبھی جمعیت میں تھے، پھر وہ تحریک استقلال میں چلے گئے۔ مگر یہاں بھی وہ ٹھیر نہ سکے۔ انہوں نے ایک دن جنرل ضیا الحق کی کابینہ میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس کے بعد انہیں اچانک نواز شریف سے عشق ہوگیا۔ پھر انہوں نے عمران خان کی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی، اب سنا ہے کہ وہ ایک بار پھر نواز لیگ میں شامل ہونے کے لیے کوشاں ہیں۔ جاوید ہاشمی کی یہ ’’سیاسی تاریخ‘‘ بتارہی ہے کہ انہیں ’’تاریخی شعور‘‘ اور ’’تاریخی ارتقا‘‘ جیسی چیز چھو کر بھی نہیں گزر سکتی۔ اس تناظر میں خورشید ندیم سے عرض ہے کہ ان کے تاریخی شعور اور تاریخی ارتقا کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ان کا تاریخی شعور نہیں بدل رہا، نہ وہ خود بدل رہے ہیں صرف ان کے مفادات بدل رہے ہیں اور مفادات کے بدلنے سے ان کے ہیروز اور ولن تبدیل ہورہے ہیں۔ یہ کوئی ’’نئی بات‘‘ نہیں تاریخ میں بارہا ایسا ہوچکا ہے۔
رسول اکرمؐ پر ایمان لانے والوں کی کئی اقسام ہیں۔ رسول اکرمؐ پر ایمان لانے والوں میں پہلی قسم وہ تھی جو رسول اکرمؐ پر ایمان لانے والوں میں پہلی قسم وہ تھی جو رسول اکرمؐ سے شخصی طور پر وابستہ تھی اور ذاتی مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر آپؐ کو جانتی تھی۔ جیسے حضرت خدیجہؓ، سیدنا علیؓ اور سیدنا ابوبکرؓ۔ رسول اکرمؐ نے اعلان نبوت فرمایا تو ان تینوں ہستیوں نے کسی سوال کے بغیر آپؐ کے نبی ہونے کی تصدیق کی۔ رسول اکرمؐ پر ایمان لانے والوں کی دوسری قسم وہ تھی جن کے لیے قرآن مجید رہنما بنا۔ سیدنا عمرؓ رسول اکرمؐ کے قتل کے ارادے سے نکلے تھے مگر اپنی بہن کے گھر میں قرآن مجید کی چند آیات کی تلاوت سے آپ پر حق آشکار ہوگیا اور آپ ایمان لے آئے۔ تیسری قسم ان لوگوں پر مشتمل ہے جنہوں نے ایمان لانے کے لیے آپؐ سے معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا۔ ایسے لوگوں کے دو درجے تھے۔ ایک درجہ ان لوگوں کا تھا جنہوں نے معجزے کا مطالبہ کیا، معجزہ دیکھا اور ایمان لائے۔ دوسرا درجہ ان لوگوں کا تھا جنہوں نے معجزے کا مطالبہ کیا، معجزہ دیکھا اور ایمان لانے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ یہ تو جادو ہے۔ رسول اکرمؐ پر ایمان لانے والوں کی ایک قسم وہ تھی کہ فتح مکہ کے بعد آپؐ پر ایمان لائے۔ یہ طاقت پرست لوگ تھے۔ انہیں معلوم ہوگیا کہ اب مکے میں اسلام اور رسول اکرمؐ کا سکہ چلے گا۔ اب مکے کی سیاست، معیشت اور معاشرت آپؐ کے ہاتھ میں ہوگی۔ چناں چہ اب آپؐ کا انکار بہت ’’مہنگا‘‘ ثابت ہوگا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مفادات کتنے اہم ہوتے ہیں۔ وہ ایمان اور کفر کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان سے لوگوں کے ہیروز اور ولن بھی یقینا بدلتے ہیں۔ مفادات کے بدلنے سے لوگوں کو یہ بھی محسوس ہوسکتا ہے کہ ان کا تاریخی شعور بدل رہا ہے یا ان کا ذہنی ارتقا ہو رہا ہے۔ یہ کل ہی کی بات ہے کہ ہمارے درمیان ہزاروں لوگ خود کو سوشلسٹ اور کمیونسٹ کہتے تھے اور وہ کمیونزم پر ہی نہیں اس کے سب سے بڑے مرکز سوویت یونین پر جان دیتے تھے مگر سوویت یونین سپر پاور اور کمیونزم عالمی نظام کے طور پر باقی نہیں رہا تو اب یہی لوگ کمیونزم اور سوویت یونین میں ہزاروں کیڑے تلاش کرتے ہیں۔ اب یہ لوگ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام، اس کی جمہوریت اور اس کی آزاد منڈی کے گن گا رہے ہیں۔ کل سرمایہ داری کا جنازہ نکل جائے گا تو یہ سرمایہ داری اور مغرب کو بھی ’’ترک‘‘ کردیں گے۔ مگر ایسا وہ تاریخی شعور یا ذہنی ارتقا کے طور پر یہ نہیں کریں گے بلکہ یہ صرف ان کے مفادات کا تقاضا ہوگا۔
اس بات کا زیر بحث مسئلے سے گہرا تعلق ہے۔ اب تک پنجاب کا بنیادی ادارہ فوج تھی۔ پنجاب کے لوگوں کی عظیم اکثریت کے لیے فوج ہی حق تھی۔ فوج ہی عاقل تھی۔ فوج ہی بالغ تھی۔ فوج ہی عالم تھی۔ فوج ہی محب وطن تھی۔ یہاں تک کہ فوج ہی پاکستان تھی۔ چناں چہ جرنیلوں نے 56 فی صد بنگالیوں کو 50 فی صد بنادیا تو بالکل ٹھیک کیا۔ انہوں نے بنگالیوں کو فوج اور سول سروس سے باہر رکھا تو ٹھیک کیا۔ انہوں نے شیخ مجیب الرحمن کی اکثریت کو تسلیم نہیں کیا تو ٹھیک کیا۔ انہوں نے شیخ مجیب کو غدار قرار دیا تو ٹھیک کیا۔ انہوں نے بنگالیوں کی تذلیل کی تو ٹھیک کیا۔ اُن کے دور اقتدار میں پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا تو ٹھیک ہوا۔ یہ سلسلہ یہاں رُکا نہیں۔ جنرل ضیا الحق نے 1977ء میں کسی ٹھوس جواز کے بغیر مارشل لا لگایا تو وہ درست تھا۔ انہوں نے بھٹو کو پھانسی پر لٹکادیا تو اس میں کوئی برائی نہ تھی۔ انہوں نے ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران دیہی سندھ میں طاقت کا بہیمانہ استعمال کیا مضائقے والی بات نہ تھی۔ جرنیلوں نے موجودہ آپریشن سے پہلے بلوچستان میں چار فوجی آپریشن کیے تو بلوچ اسی قابل تھے۔ مگر جنرل پرویز کے ظہور سے قبل میاں نواز شریف چوں کہ پنجاب کے رہنما بن چکے تھے اس لیے جنرل پرویز نے میاں نواز شریف کو ہٹایا تو پہلی بار اہل پنجاب کو محسوس ہوا کہ جرنیل کچھ غلط بھی کرتے ہیں۔ چناں چہ فوج کی تاریخ میں پہلی بار جنرل ضیا الدین نے فوج کے ڈسپلن کو توڑا۔ چوں کہ جنرل پرویز کی منصوبہ بندی زیادہ بہتر تھی اس لیے جنرل ضیا الدین بٹ چلا نہ پائے، مگر اس سے معلوم ہوگیا کہ میاں نواز شریف کی طاقت کتنی غیر معمولی ہے اور اس طاقت کا اصل سبب کیا ہے؟ بدقسمتی سے میاں نواز شریف اپنی لسانی شناخت کو چھپاتے بھی نہیں۔ آئی جے آئی کی سیاست کے دوران وہ پنجاب میں جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگوا چکے۔ روزنامہ جنگ میں میاں نواز شریف کے حامی تین کالم نگاروں نے انہیں اپنی تحریروں میں کھل کر ’’پنجابی وزیراعظم‘‘ اور ’’پنجابی رہنما‘‘ قرار دیا۔ ہم نے فرائیڈے اسپیشل میں اس موضوع پر حوالوں کے ساتھ ایک کالم بھی تحریر کیا۔ میاں نواز شریف اور نواز لیگ کے رہنمائوں نے گزشتہ ڈیڑھ سال میں فوج اور عدلیہ پر جو حملے کیے ہیں وہ کسی اور نے کیے ہوتے تو اس کا نام و نشان مٹ چکا ہوتا۔ خیر سے میاں صاحب فائیو اسٹار جیل کے مزے لوٹ رہے ہیں اور عمران خان چاہ کر بھی میاں صاحب کی جیل کو ایک اسٹار نہیں بنا سکتے۔
مہاجروں کو اس بات کا بڑا زعم ہے کہ وہ بڑے نظریاتی، بڑے مہذب اور بڑے تاریخی شعور کے حامل ہیں مگر ان کے ’’مفادات‘‘ کی سیاست نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو پیدا کیا اور کراچی نے 35 سال تک ’’مہاجر فاشزم‘‘ کو جھیلا۔ یہ مہاجروں کا تاریخی شعور یا تاریخی ارتقا نہیں تھا بلکہ یہ مہاجروں کے ’’شعور کا زوال‘‘ تھا۔ ہم نے گزشتہ 35 سال میں ایسے بہت سے مہاجر دانش ور دیکھے جو ایم کیو ایم کی سیاست کو مہاجروں کا ذہنی یا تاریخی ارتقا سمجھتے تھے۔ مگر بالآخر ثابت ہوا کہ یہ خیال ایک دھوکے یا واہمے کے سوا کچھ نہ تھا۔ خورشید ندیم بھی اپنے اور دیگر کے تاریخی شعور اور تاریخی ارتقا کے دھوکے سے جتنی جلد نکل جائیں اچھا ہے۔
خورشید ندیم صاحب نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ان کا تصور تاریخ اُن کے تصور اخلاق اور ان کے شخصی تجربے کا حاصل ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ خورشید ندیم کو پتا ہی نہیں کہ مسلمانوں کا تاریخی شعور کہاں سے آتا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ ان کی ’’مہا تاریخ‘‘ یا Meta History کا حاصل ہے۔ اس کا کسی شخصی تصور اخلاق یا شخصی تجربے سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ قرآن مجید ایک خاص عہد میں نازل ہوا مگر قرآن کا پیغام لازمانی ہے۔ اسی طرح یہ بھی ٹھیک ہے کہ رسول اکرمؐ کا ایک خاص عہد تھا مگر آپؐ کی ذات بھی لازمانی ہے اور آپؐ کی سیرت پاک بھی۔ اسلام کی یہی لازمانیت اصل چیز ہے اور مسلمانوں کا ’’زمانہ‘‘ ہمیشہ اسی لازمانیت کے زیراثر رہا ہے اب بھی ہے، رہے گا اور رہنا چاہیے۔ اسلام اپنی ’’روح‘‘ میں ہمیشہ قدیم اور اپنے ’’اظہار‘‘ میں ہمیشہ ’’جدید‘‘ رہے گا۔ جو شخص یہ بات نہیں جانتا وہ اسلام اور اس کی تاریخ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔
خورشید ندیم نے اسلام پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ انسانوں میں خوئے غلامی پیدا کرتا ہے، خورشید ندیم کے بقول حضور اکرمؐ کے بعد اقتدار کو ایک تقدس حاصل ہوگیا اور خلفائے راشدین تک یہ ٹھیک بھی تھا اس لیے کہ انہوں نے اقتدار اور خدا خوفی کو یکجا کردیا تھا مگر بعد میں یہ یکجائی باقی نہ رہی لیکن اس کے باوجود تصور یہی رہا کہ بادشاہ ظل اللہ یا زمین پر خدا کا سایہ ہے۔ خورشید ندیم کے بقول ہمارا تصور تاریخ اسی سے پھوٹا ہے۔ ہماری تاریخ خلافت اور ملوکیت کے تجربے کے فرق کو اچھی طرح سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تاریخ نے سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمانؓ اور سیدنا علی ؓ کے سوا کسی کو خلیفہ نہ کہا۔ مگر عمر بن عبدالعزیز میں تقویٰ اور علم یکجا ہوئے تو ہماری تاریخ نے انہیں خلیفہ پنجم کا نام دیا۔ یہ شعور ہماری تاریخ میں اتنا راسخ ہے کہ ہماری تاریخ بادشاہوں تک میں فرق کرتی ہے۔ ساری دنیا اکبر کو عظیم ترین مغل بادشاہ کہتی ہے اورنگزیب کو ولن کے طور پر پیش کرتی ہے مگر ہماری تاریخ کا مرکزی دھارا اکبر کو ’’ولن‘‘ اور اورنگزیب عالمگیر کو ’’ہیرو‘‘ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ جہاں تک ملوکیت کا تعلق ہے تو وہ بلاشبہ خلافت کا سایہ بھی نہ تھی مگر ملوکیت ہمارے روحانی، اخلاقی اور علمی زوال کی علامت ہے مذہب کے خلاف بغاوت کی علامت نہیں۔
آخر ملوکیت میں بھی عقاید و عبادات کا نظام موجود رہا اور عدالتوں فیصلے قرآن و سنت کے مطابق ہوتے رہے۔ یعنی نظریاتی سطح پر ہماری تاریخ کا تسلسل برقرار رہا۔ یہ معمولی بات نہیں۔ دنیا کی اور کون سی امت ایسی مثال پیش کرسکتی ہے؟۔
بدقسمتی سے خورشید ندیم تاریخ کو جمہوریت اور آمریت کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور جمہوریت کو وہ آزادی کی علامت اور فوجی آمریت کو وہ انسان کی آزادی کے خلاف سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ مغرب کی جمہوریت بھی خواص کی آمریت کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان اور ہندوستان ہی میں نہیں امریکا اور یورپ میں بھی جمہوریت سرمایہ داروں، کارپوریٹ سیکٹر، جاگیرداروں اور Electables کا نظام ہے۔ اس نظام میں عام لوگوں کے لیے آزادی نہ پاکستان اور ہندوستان میں ہے نہ امریکا اور یورپ میں۔ بدقسمتی سے خورشید ندیم کے ممدوح نواز شریف ’’سول آمر‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ مگر خورشید ندیم ’’باطن‘‘ کو کہاں دیکھتے ہیں وہ تو ’’ظاہر‘‘ کے عاشق ہیں۔ میر کا شعر ہے۔
صورت پرست ہوتے نہیں معنی آشنا
ہے عشق سے بتوں کے مرلے مدعا کچھ اور
اس تناظر میں دیکھا جائے تو بیچارے خورشید ندیم ماضی میں بھی ’’ولنوں‘‘ کو ’’ہیرو‘‘ سمجھتے رہے اور اب بھی وہ ایک ولن ہی کو ہیرو کا درجہ دے رہے ہیں۔