افکار سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ

332

صفا اور مروہ
صفا اور مَروہ مسجدِ حرام کے قریب دو پہاڑیاں ہیں، جن کے درمیان دوڑنا منجملہ اْن مناسِک کے تھا، جو اللہ تعالیٰ نے حج کے لیے ابراہیمؑ کو سکھائے تھے۔ بعد میں جب مکّے اور آس پاس کے تمام علاقوں میں مْشرکانہ جاہلیت پھیل گئی، تو صَفَا پر ’’اِساف‘‘ اور مَروَہ پر ’’نائلہ‘‘ کے استھان بنا لیے گئے اور ان کے گرد طواف ہونے لگا۔ پھر جب نبیؐ کے ذریعے سے اسلام کی روشنی اہلِ عرب تک پہنچی، تو مسلمانوں کے دلوں میں یہ سوال کھٹکنے لگا کہ آیا صَفَا اور مَروَہ کی سَعی حج کے اصلی مناسک میں سے ہے یا محض زمانۂ شرک کی ایجاد ہے، اور یہ کہ سَعی سے کہیں ہم ایک مشرکانہ فعل کے مرتکب تو نہیں ہوجائیں گے۔ نیز عائشہؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ مدینہ کے دِلوں میں پہلے ہی سے سعی بین الصّفا و المَروَہ کے بارے میں کراہت موجود تھی، کیونکہ وہ مَناۃ کے معتقد تھے اور اساف ونائلہ کو نہیں مانتے تھے۔ اِنہی وجوہ سے ضروری ہوا کہ مسجدِحرام کو قبلہ مقرر کر نے کے موقع پر اْن غلط فہمیوں کو دْور کر دیا جائے جو صَفَا اور مَروَہ کے بارے میں پائی جاتی تھیں، اور لوگوں کو بتا دیا جائے کہ ان دونوں مقامات کے درمیان سعی کرنا حج کے اصلی مَنَاسِک میں سے ہے اور یہ کہ ان مقامان کا تقدس خدا کی جانب سے ہے، نہ کہ اہلِ جاہلیّت کی من گھڑت۔ (تفہیم القرآن، سورہ البقرہ حاشیہ 158)
٭…٭…٭
حج اور زادِراہ
جاہلیّت کے زمانے میں حج کے لیے زادِراہ ساتھ لے کر نکلنے کو ایک دْنیا دارانہ فعل سمجھا جاتا تھا اور ایک مذہبی آدمی سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ خدا کے گھر کی طرف دْنیا کا سامان لیے بغیر جائے گا۔ اس آیت میں اْن کے اِس غلط خیال کی تردید کی گئی ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ زادِراہ نہ لینا کوئی خوبی نہیں ہے۔ اصل خوبی خدا کا خوف اور اس کے احکام کی خلاف ورزی سے اجتناب اور زندگی کا پاکیزہ ہونا ہے۔ جو مسافر اپنے اخلاق درست نہیں رکھتا اور خدا سے بے خوف ہو کر بْرے اعمال کرتا ہے، وہ اگر زادِ راہ ساتھ نہ لے کر محض ظاہر میں فقیری کی نمائش کرتا ہے، تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ خدا اور خلق دونوں کی نگاہ میں وہ ذلیل ہوگا اور اپنے اْس مذہبی کام کی بھی توہین کرے گا، جس کے لیے وہ سفر کر رہا ہے۔ لیکن اگر اس کے دل میں خدا کا خوف ہو اور اس کے اخلاق درست ہوں، تو خدا کے ہاں بھی اس کی عزّت ہوگی اور خلق بھی اس کا احترام کرے گی، چاہے اس کا توشہ دان کھانے سے بھرا ہوا ہو۔ (تفہیم القرآن، سورہ البقرہ ، حاشیہ 217)
٭…٭…٭
حج اور جھوٹی شان
سیدنا ابراہیم و اسماعیل علیہما السّلام کے زمانے سے عرب کا معرْوف طریقۂ حج یہ تھا کہ 9 ذی الحجہ کو مِنیٰ سے عَرَفات جاتے تھے اور رات کو وہاں سے پلٹ کر مْزدلفہ میں ٹھہرتے تھے۔ مگر بعد کے زمانے میں جب رفتہ رفتہ قریش کی برہمنیت قائم ہوگئی، تو انہوں نے کہا: ہم اہل ِ حرم ہیں، ہمارے مرتبے سے یہ بات فروتر ہے کہ عام اہلِ عرب کے ساتھ عرفات تک جائیں۔ چنانچہ انہوں اپنے لیے یہ شانِ امتیاز قائم کی کہ مْزدلفہ تک جاکر ہی پلٹ آتے اور عام لوگوں کو عرفات تک جانے کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔ پھر یہی امتیاز بنی خْزَاعہ اور بنی کِنَانہ اور اْن دْوسرے قبیلوں کو بھی حاصل ہوگیا، جن کے ساتھ قریش کے شادی بیاہ کے رشتے تھے۔ آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ جو قبیلے قریش کے حلیف تھے، اْن کی شان بھی عام عربوں سے اْونچی ہوگئی اور انہوں نے بھی عرفات جانا چھوڑ دیا۔ اسی فخر وغرور کا بْت اس آیت میں توڑا گیا ہے۔ آیت کا خطابِ خاص قریش اور ان کے رشتے دار اور حلیف قبائل کی طرف ہے اور خطابِ عام اْن سب کی طرف ہے، جو آئندہ کبھی اس قسم کے امتیازات اپنے لیے مخصْوص کرنا چاہیں۔ اْن کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اَور سب لوگ جہاں تک جاتے ہیں، انھیں کے ساتھ جاؤ، اْنھیں کے ساتھ ٹھہرو، انھیں کے ساتھ پلٹو، اور اب تک جاہلیّت کے فخر وغرور کی بنا پر سنت ِ ابراہیمی کی جو خلاف ورزی تم کرتے رہے ہو، اس پر اللہ سے معافی مانگو۔ (تفہیم القرآن، سورہ البقرہ ، حاشیہ 220)