عرفان صدیقی ’’شہرت‘‘ کی بلندیوں پر

692

محترم عرفان صدیقی سے ہماری بھی یاد اللہ ہے لیکن سچی بات ہے وہ مدت ہوئی ہمارے حافظے سے محو ہوچکے تھے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ انہوں نے خود ہی کالم نگاری ترک کردی تھی۔ حالاں کہ بطورِ کالم نگار ان کا بڑا نام تھا وہ بڑی خوبصورت اردو لکھتے تھے، لکھتے کیا تھے بس موتی پروتے تھے، ان کے قارئین کا ایک وسیع حلقہ تھا، بہت سے معروف لکھنے والے بھی ان کے قلم کی جادوگری کے معترف تھے۔ غرض ان کا جادو سرچڑھ کر بول رہا تھا کہ وہ شریف فیملی کو پیارے ہوگئے۔ میاں نواز شریف نے ان سے کالم نگاری چھڑا کر اپنی خدمت پر لگالیا اور انہیں سرکاری ملازم کا درجہ دے دیا گیا۔ نواز حکومت کے پہلے دور میں وہ صدر رفیق تارڑ کے پریس سیکرٹری رہے۔ اس حیثیت میں وہ ادیبوں، صحافیوں اور کالم نگاروں کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے اور اخبارات میں ان کا ذکر خیر بھی ہو جاتا تھا، پھر جب جنرل پرویز مشرف نے شب خون مار کر میاں نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کردیا تو جب تک صدر رفیق تارڑ ایوانِ صدر میں براجمان رہے عرفان صدیقی بھی اپنا فرض منصبی انجام دیتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے صدر رفیق تارڑ کو گھر بھیجا تو عرفان صاحب نے بھی گھر کی راہ لی۔ وہ چاہتے تو سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد ازسرِنو کالم نگاری شروع کرسکتے تھے، ان کی مارکیٹ ویلیو برقرار تھی اور اخبارات انہیں ہاتھوں ہاتھ لینے کو تیار تھے لیکن میاں نواز شریف نے اس گوہر نایاب کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ وہ پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی قید میں رہے یا جدہ کے سرور پیلس میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ دونوں صورتوں میں انہیں عرفان صدیقی کی مشاورت میسر رہی اور وہ میاں صاحب کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ میاں صاحب کو اس جلاوطنی کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت کرنے کا مشورہ بھی عرفان صاحب نے ہی دیا تھا اور اس میثاق کی اردو ڈرافٹنگ بھی انہوں نے کی تھی جسے بعد میں انگریزی کا جامہ پہنایا گیا۔
جب میاں نواز شریف جلاوطنی کی زندگی گزارنے کے بعد لندن سے پاکستان کے لیے روانہ ہوئے تو عرفان صدیقی ان کے ہمراہ تھے۔ وہ اپنی خدمات کے عوض اس بات کی توقع رکھتے تھے کہ میاں صاحب سینیٹ کی نشست انہیں پیش کریں گے اور آئندہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنی تو وہ بھی وزارت کا لطف اُٹھا سکیں گے۔ میاں صاحب نے سینیٹ کی نشست تو عرفان صاحب کو نہ دی البتہ 2013ء کے انتخابات میں جب مسلم لیگ (ن) برسراقتدار آئی اور میاں نواز شریف نے تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو انہوں نے عرفان صدیقی کی دلجوعی میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ انہیں وفاقی مشیر کی حیثیت سے وزیر مملکت کا درجہ دیا گیا اور علم و ادب اور آرٹ اینڈ کلچر سے متعلق تمام ادارے ان کی تحویل میں دے دیے گئے۔ عرفان صاحب کی اُمید بَر آئی۔ ان کی پانچوں گھی میں تھیں کہ اچانک ’’پاناما‘‘ ہوگیا۔ میاں صاحب کی قسمت گردش میں آگئی۔ اقتدار سے نکالے گئے بلکہ ہمیشہ کے لیے سیاست سے نااہل قرار دے دیے گئے۔ لیکن عرفان صدیقی نے ان کا دامن نہ چھوڑا۔ جب تک مسلم لیگ (ن) کی حکومت رہی وہ اپنے منصب کا لطف اُٹھاتے رہے۔ پھر 2018ء میں نئے انتخابات ہوئے اور عمران خان کی حکومت قائم ہوئی تو مسلم لیگ (ن) پر ابتلا کے نئے دور کا آغاز ہوگیا۔ ایسے میں عرفان صدیقی اپنے محاذ پر واپس آگئے اور عمران حکومت کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے میڈیا سیل اپنی ذمے داری سنبھال لی۔ وہ پہلے میاں نواز شریف کی تقریریں لکھا کرتے تھے، اب یہی خدمت مریم نواز کے لیے انجام دے رہے ہیں۔ مریم نواز کی تقریر نے پورے ملک میں دھوم مچا رکھی ہے۔ حکومت بوکھلائی بوکھلائی پھر رہی ہے۔ بس یہی ’’خدمت‘‘ عرفان صدیقی کا وہ ناقابل معافی جرم بن گئی ہے جس کی پاداش میں انہیں کرایہ داری ایکٹ کی آڑ میں پکڑا گیا ہے اور ان کے ہاتھ میں ہتھکڑی ڈالی گئی ہے۔ ہتھکڑی والی جو تصویر اخبارات اور سوشل میڈیا میں وائرل ہوئی ہے اس میں ان کے ایک ہاتھ میں ہتھکڑی ہے اور دوسرے ہاتھ میں انہوں نے قلم پکڑ رکھا ہے۔ اس طرح عرفان صدیقی یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے کہ ان کی ذات کو نہیں بلکہ قلم کو پابند سلاسل کیا گیا ہے۔
عرفان صدیقی صرف ایک رات اڈیالہ جیل میں محبوس رہے، اگلے دن انہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا لیکن اس ایک رات نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں عمر خضر دے، اگر خدانخواستہ ان کا گوشہ گمنامی میں انتقال ہوجاتا تو اخبارات کے کسی کونے میں چار سطر سے زیادہ کی خبر شائع نہ ہوتی، لیکن ان کی ایک رات کی گرفتاری نے پورے میڈیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ تقریباً سارے اخبارات نے ان کی گرفتاری پر ادارتی نوٹ لکھے اور ان کی گرفتاری کی مذمت کی۔ کم و بیش سب کالم نگاروں نے اس موضوع پر خامہ فرسائی کی اور دل کے پھپھولے پھوڑے۔ رہ گئے مذمتی اور تنقیدی بیانات، ان کا تو کوئی حساب ہی نہ تھا، قومی اسمبلی کے اسپیکر سے لے کر چیف جسٹس تک سب نے اس گرفتاری کا نوٹس لیا اور اسے پوری قوم کی سُبکی قرار دیا۔ ہاں یاد آیا ہمارے دوست سینئر صحافی فاروق اقدس نے اپنے فیس بک اکائونٹ میں عرفان صاحب کی ہتھکڑی والی تصویر پوسٹ کی ہے اور یہ دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ عرفان صدیقی جب راولپنڈی سے اسلام آباد منتقل ہوئے تو اپنا پی ٹی سی ایل ٹیلیفون انہیں دے گئے تھے جو اب بھی ان کے گھر پر عرفان صدیقی کے نام سے لگا ہوا ہے جو قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے اس پر بھی عرفان صاحب کو دس سال کی سزا ملنا چاہیے۔ شاعر نے کہا تھا۔
شریک جرم نہ ہوتا تو مخبری کرتا
فاروق اقدس کی ڈھٹائی دیکھیے کہ شریک جرم بھی ہیں اور مخبری بھی کررہے ہیں۔ درپردہ ان کے اندر بھی یہ خواہش کسمسا رہی ہے کہ انہیں بھی گرفتاری کے ’’اعزاز‘‘ سے نوازا جائے لیکن فاروق اقدس خاطر جمع رکھیں۔
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں؟