محبت اور آزمائش

336

خرم مراد

حج کا دن تکمیل دین اور اتمام نعمت کی بشارت کا دن بھی ہے۔ اس سے اگلے دن ہی ساری دْنیا کے مسلمان عیدالاضحی کا جشن مناتے ہیں، اور اللہ کے حضور قربانیاں پیش کرتے ہیں۔ کیا ان کے درمیان ربط کا ادراک بہت مشکل ہے۔ نزول قرآن کے آغاز کے دن، ضبطِ نفس اور تقویٰ، تلاوت قرآن اور قیام اللیل کے ذریعے قربِ الٰہی کے حصول کے لیے، وقف کیے گئے۔ تکمیل دین اور اتمام نعمت کے دن، قربانی اور حبِ الٰہی کے حصول کے لیے مختص کیے گئے۔
تکمیل واتمام بغیر قربانی کے ممکن نہیں، اور قربانی بغیر محبت کے ممکن نہیں۔ اسی لیے حج کے مناسک تمام تر عشق و محبت پر مشتمل ہیں۔ شاہ عبدالعزیز لکھتے ہیں:
سیدنا ابراہیمؑ کو حکم دیا گیا کہ سال میں ایک دفعہ اپنے کو سرگشتہ وشیدا بنا کر، دیوانوں کی طرح اور عشق بازوں کا وتیرا اختیار کرکے، محبوب کے گھر کے گرد ننگے پاؤں، اْلجھے ہوئے بال، پریشان حال، گرد میں اٹے ہوئے، سرزمین حجاز میں پہنچیں، اور وہاں پہنچ کر کبھی پہاڑ پر، کبھی زمین پر، محبوب کے گھر کی طرف رخ کرکے کھڑے ہوں۔ اس خانۂ تجلیات کے اردگرد چکر لگائیں، اور اس کے گوشوں کو چومیں چاٹیں۔
اسی محبت کی وجہ سے سیدنا ابراہیمؑ میں یہ استعداد پیدا ہوئی کہ وہ ہر محبوب چیز کو اس کے لیے قربان کر دیں جو ایمان لاتے ہی سب سے بڑھ کر محبوب ہو جاتا ہے۔ اور جب محبت کی آخری آزمایش آئی، بیٹے کو قربان کر دینے کے لیے کہا گیا، تو اْنھوں نے بیٹے کے گلے پر بھی چھری رکھ دی۔ جب وہ محبت کی ان ساری آزمایشوں میں پورے اترے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان پر وہ نعمت بھی تمام کر دی جو دین کی نعمت کے اتمام کے ساتھ لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتی ہے۔
’’یاد کرو کہ جب ابراہیمؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اْتر گیا، تو اْس نے کہا: ’’میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں‘‘۔ (البقرہ124 )
جو ایک مکمل دین کے حامل ہونے کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے، ان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جب تک وہ محبت کے اس چیلنج کا جواب دینے کے لیے تیار نہ ہوں گے کہ ’’کیا کوئی بھی ایسی چیز ایسی ہے جو اللہ، اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہے؟‘‘ اس وقت تک ان کے سروں پر سے امرالٰہی ٹل نہیں سکتا، اور وہ وعدۂ الٰہی کے مستحق ہونہیں سکتے۔
صدق خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق