منافع بخش اداروں کی نجکاری

450

ملک میں عجیب دستور چل نکلا ہے کہ جو ادارہ منافع بخش اور ملکی خزانے کو بھرنے میں اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کررہا ہو ، فوری طور پر اس ادارے کی نجکاری کی آواز بلند کردی جاتی ہے ۔ پی ٹی سی ایل ، او جی ڈی سی ایل اور پی ایس او اسی طرح کی مثالیں ہیں ۔ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کو بھی اب اسی فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے جو منافع میں ہونے کے باوجود حکمرانوں کی آنکھ میں کھٹک رہا ہے ۔ کسی بھی منافع بخش ادارے کوتباہ کرنے کے لیے پہلا سنہری اصول یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ اس ادارے میں ایک نااہل شخص اور متعلقہ شعبہ میں کسی بھی قسم کے تکنیکی تجربے سے عاری فرد کو سربراہ مقرر کردیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد کا عمل خودکار ہوتا ہے یعنی وہ نااہل شخص ہر تجربہ کار افسر کو سائیڈ لائن کردیا جاتا ہے اور اس کی جگہ خوشامدی اور سفارشی افراد کو تعینات کردیا جاتا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مذکورہ ادارے کی کارکردگی جلد ہی بدتر اور پھر بدترین ہوجاتی ہے ۔ اب اصل منصوبہ باہر نکالا جاتا ہے اور وہ ہے آؤٹ سورسنگ یا پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے نام پر نجکاری ۔ اور یوں ایک منافع بخش ادارے دیکھتے ہی دیکھتے سرکار میں بیٹھے افراد کی فرنٹ کمپنیوں کے لیے دودھ اور شہد کی نہر ثابت ہوتے ہیں ۔ یہی آزمودہ نسخہ سول ایوی ایشن اتھارٹی میں بھی آزمایا گیا ۔ یہاں پر مسلسل ایسے افراد کو سربراہ مقرر کیا جاتا رہا ہے جن کا شہری ہوابازی سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا ۔ پہلے میں اور اب میں مزید فرق یہ آگیا ہے کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی میں نہ تو بورڈ آف ڈائریکٹر ز میں پیشہ ورانہ اہلیت کے حامل افراد موجود ہیں اور نہ ہی انتظامی ڈائریکٹر اس قابل ہیں کہ وہ اپنے منصب کے ساتھ انصاف کرسکیں ۔ مرے پر سو درے کا معاملہ یہ کیا گیا ہے ایک بیوروکریٹ یعنی ایوی ایشن ڈویژن کے سیکریٹری کو سول ایوی ایشن اتھارٹی کا تین ماہ کے لیے اس لیے چارج دیا گیا کہ وہ اس عرصے میں ایک اہل شخص کو ڈھونڈھ کر ڈائریکٹر جنرل کی اسامی پر تعینات کردیں گے ۔ یہ تین ماہ کی عارضی مدت 16 اپریل کو ختم ہوچکی ہے مگر سیکریٹری ایوی ایشن شاہ رخ نصرت ابھی تک ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن اتھارٹی کا چارج چھوڑنے پر راضی نہیں ہیں ۔ شاہ رخ نصرت کی بطور ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن اتھارٹی کے مدت میں توسیع کا نوٹیفکیشن جاری نہ ہونے پر ان کے انتظامی اقدامات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں رہی ۔ اس لیے ان انتظامی اقدامات اور فیصلوں پر بھی سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں ۔ ایک نااہل اور ناتجربہ کار شخص کو ایک اہم ادارے کا سربراہ بنانے کے بعد دوسرے مرحلے کا بھی آغاز کردیا گیا ہے ۔یعنی پہلے سول ایوی ایشن اتھارٹی کی دوحصوں میں تقسیم اور پھر اس کے کمرشیل ونگ کی نجکاری ۔یہ کمرشیل ونگ ہی ہے جو ریونیو حاصل کرتا ہے ۔ اب اسے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت کسی بااثر فرد کی فرنٹ کمپنی کے حوالے کردیا جائے گا یا بھاری کمیشن کے عوض کسی غیر ملکی کمپنی کے سپرد کردیا جائے گا۔ جب نواز شریف وزیر اعظم تھے ، اس وقت اس ادارے کو لوٹنے کا الگ ہی طریقہ اختیار کیا گیا تھا اور وہ یہ تھا کہ ائرپورٹوں پر ترقیاتی اور توسیعی منصوبے ۔ ان منصوبوں میں سیکڑوں ارب روپے کی کرپشن کی گئی مگر اس سلسلے میں ہر طرف خاموشی ہے ۔ دوسرا کام یہ کیا گیا کہ ہوائی اڈوں پرفضائی کمپنیوں کو سہولیات کی فراہمی سول ایوی ایشن اتھارٹی سے لے کر کیپٹن عظیم طارق کی کمپنی رائل ائرپورٹ سروسز کے حوالے کرنا ۔ عمران خان یہ بتائیں کہ کسی بھی ادارے میں اہل فرد کا بطور سربراہ تقررکس کی ذمہ داری ہے ۔