ورلڈ کپ۔ انگلینڈ۔ سٹہ یا قانونی سقم

344

کم از کم کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ سٹہ کھیلا گیا ہے یا میچ فکس تھا… لیکن دنیا کو بہترین کرکٹ دیکھنے کو ملی۔ اور اگر میچ فکس تھا تو یہ بھی سیکھنے کی ضرورت ہے اتنی محنت کرنی پڑتی ہے۔ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی ٹیمیں پہلی مرتبہ عالمی کپ کا فائنل کھیل رہی تھیں، لارڈز کا تاریخی میدان، درجنوں نہیں بلکہ سیکڑوں کرکٹ لیجنڈز موجود تھے۔ ساری دنیا کی نظریں اس بات پر تھیں کہ کون عالمی چمپئن بن رہا ہے جو بھی جیتتا ہر صورت میں پہلی مرتبہ ہی چمپئن بنتا۔ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ چھیننے کی پوری کوشش کی لیکن انگلینڈ کی قسمت نے یاوری کی۔ مقررہ 50 اوورز میں دونوں ٹیموں کا اسکور 241 رنز برابر رہا، اس کے بعد سپر اوور کا مرحلہ آیا، انگلینڈ نے 15 رنز بنائے اور نیوزی لینڈ 16 رنز نہ بنا سکا اور ورلڈکپ انگلینڈ کا ہوا۔ اس ورلڈ کپ کا سبق فائنل میں اور سپر اوور میں صاف صاف ملتا ہے۔ محنت، محنت اور محنت…
پاکستان میں کرکٹ ٹیم تیاری کے بغیر منتخب کی جاتی ہے، کسی منصوبہ بندی کے بغیر میدان میں اُتار دی جاتی ہے۔ کھلاڑیوں کو تیار کرنے کا معاملہ برسوں پر محیط ہوتا ہے لیکن پاکستانی ٹیم تیار کرنے کے لیے کھلاڑی تیار کرنے کا تصور ہی نہیں ہے۔ جب عالمی کپ شروع ہوا تھا تو ہم نے تمام ٹیموں کا تجزیہ کیا تھا اور یہ پیشگوئی کی تھی کہ انگلینڈ عالمی کپ جیت جائے گا۔ اس میں اس ٹیم کی صلاحیتوں، کرکٹ کے حالات اور اس خفیہ منصوبہ بندی کا ذکر بھی تھا جس میں میزبان ملک کو عالمی چمپئن بنوانے کا ذکر تھا۔ انگلینڈ تینوں شرائط پوری کرتا تھا لیکن نیوزی لینڈ نے انگلینڈ سے عالمی کپ چھیننے کی پوری کوشش کی لیکن قسمت نے یاوری نہ کی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے بھی اس ورلڈ کپ میں کئی سبق ہیں۔ پہلا سبق تو یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ جیت چکی ہے، کئی مرتبہ سیمی فائنل میں پہنچ چکی ہے، اس ٹیم کے پاس عالمی معیار کے کھلاڑی موجود ہیں جو کوچ بن سکتے ہیں لہٰذا غیر ملکی کوچ کا بھوت سر سے اُتار لیں۔ موجودہ عالمی چمپئن انگلینڈ کے موجودہ کوچ ٹریوز بیلیس ہیں آسٹریلین ہیں۔ جب کہ ڈنکن فلیچر (زمبابوے) نے 8 سال تک انگلش ٹیم کی کوچنگ کی۔ پیٹر مورز نے انگلینڈ کی کوچنگ دو مرتبہ سنبھالی۔ انگلینڈ کے کوچز میں اینڈی فلاور بھی رہے لیکن وہ صرف ٹیسٹ کرکٹ کوچنگ کرتے تھے۔ 1986ء سے 2019ء تک دس کوچ مقرر کیے گئے ان میں سے سات انگلش تھے۔ جب کہ پاکستان کے 11 میں سے 5 کوچز غیر ملکی رہے ہیں جن میں مکی آرتھر، جیف لامن، رچرڈ پائی یس ڈیوواٹمور اور باب وولمر شامل ہیں۔ پاکستان کی عالمی کپ میں کامیابی کے وقت پاکستانی کوچ انتخاب عالم تھے جب کہ ٹی 20 ورلڈکپ جیتنے کے وقت بھی وہ کوچ تھے۔ خیر یہ بحث الگ ہے لیکن جو سبق ملے ہیں وہ ہیں یہی کہ غیر ملکی کوچز کا خیال دماغ سے نکال دیا جائے۔ ٹیم بنانے کے بارے میں جو بیان احسان مانی نے دیا ہے کہ چار سالہ منصوبہ بندی کی جائے گی تو پھر حقیقتاً چار سالہ منصوبہ بندی کی جائے۔ کپتان اور کھلاڑیوں خصوصاً کپتان کے سر پر برطرفی کی تلوار ہر وقت نہ لٹکی رہے۔ میڈیا کو لگام دی جائے جس کے بہت سارے اینکرز، رپورٹرز اور تجزیہ نگار کرکٹ ہی سے نابلد ہوتے ہیں… میڈیا پر اسپانسر شپ ختم کروائی جائے، الیکٹرونک میڈیا پر کرکٹ ٹیموں اور کھلاڑیوں کو بانس پر چڑھا کر اشتہارات اینٹھنے کی مہم روکی جائے۔ ایسی مہم کے نتیجے میں قوم میں بے تحاشا توقعات پیدا ہوجاتی ہیں باقی کام جذباتی تجزیہ کار کرتے ہیں اچھے کھلاڑی کو بے کار اور بے کار کو اچھا بنادیتے ہیں۔ سب سے اہم بات اور کام کرکٹ بورڈ کا ہے جو کھلاڑیوں کی پرفارمنس کو چھپاتا ہے۔ کھلاڑیوں کی پرفارمنس کا جائزہ سالانہ اور ماہانہ بنیادوں پر میڈیا کے سامنے آنا چاہیے تا کہ عوام کو بھی معلوم ہوسکے کہ کون سا کھلاڑی کس سطح پر ہے۔ پھر سلیکشن کے موقع پر ہیرا پھیری کم ہوسکے گی۔ کسی کی ذاتی پسند ناپسند بھی سلیکشن کو متاثر نہ کرسکے گی۔
بہرحال کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل میں انگلینڈ کی کامیابی میں بہت سارے سوالات اُٹھے ہیں۔ عالمی سطح کے ٹورنامنٹ کے فیصلے کے لیے بائونڈریز کو معیار بنانا، امپائر کے فیصلوں کا متنازع ہونا اور پانچ کے بجائے چھ رنز دینے کے فیصلے پر بھی کافی لے دے ہورہی ہے۔ آئی سی سی کو اس حوالے سے کرکٹ کھیلنے والے ممالک کو مطمئن کرنا ہوگا۔ سابق پی سی بی چیف نسیم اشرف نے تو آئی سی سی سے کرکٹ کی دنیا سے معافی مانگنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ یہ بات بہرحال قابل غور ہے کہ اتنے بڑے ٹورنامنٹ کا فائنل اس طرح فیصل کیا جائے۔ نسیم اشرف کا مطالبہ درست ہے کہ ورلڈ کپ دونوں ٹیموں کو مشترکہ طور پر دیا جانا چاہیے تھا۔ کھیلوں کی دنیا میں ہاکی پاکستان کے لیے اہم اور قومی کھیل ہے۔ ہاکی میں اگر سیمی فائنل یا فائنل میں گول برابر ہوجائیں تو زیادہ پنالٹی کارنرز حاصل کرنے کی بنیاد پر فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ اضافی وقت دیا جاتا ہے۔ اگر اس میں بھی فیصلہ نہیں ہوتا تو مزید اضافی وقت دیا جاتا ہے پھر بھی فیصلہ نہ ہو تو یا تو پنالٹی اسٹروکس پانچ پانچ کرکے دیے جاتے تھے یا سڈن ڈیتھ کا گیم شروع ہوتا تھا یہاں تک کہ جو ٹیم پہلے گول کردے وہی فاتح ہوگی۔ لیکن بائونڈریز کی تعداد پر فیصلے کا اصول پہلی مرتبہ استعمال کیا گیا جس پر بجا طور پر تنقید ہورہی ہے۔ اسی فیصلے اور اصول کو اختیار کرنے کی وجہ سے یہ کہا جارہا ہے کہ ٹرافی انگلینڈ اور نیوزی لینڈ دونوں میں دو دو سال کے لیے شیئر ہونی چاہیے تھی۔ بہرحال پاکستان کرکٹ بورڈ کو بیانات سے آگے نکل کر چار سالہ منصوبہ بندی کرنی ہوگی ورنہ یہ پرانی کہانی 2023ء میں بھی دہرائی جارہی ہوگی۔