صحافیوں کے 210 پلاٹوں کے لیے فوری طورپرزمین مختص کی جائے، صوبائی وزرا

164

کراچی (اسٹا ف رپورٹر) حکومت سندھ نے ہاکس بے اسکیم 42 میں صحافیوں کے 210 پلاٹس کے حوالے سے سنجیدگی سے غور شروع کردیا ہے۔ مذکورہ اسکیم کی زمین کی میوٹیشن سمیت دیگر معاملات کو قانونی طور پر حل کرنے اور معزز عدلیہ کے فیصلوں کی روشنی میں فوری اقدامات کو یقینی بنانے کی بھی ہدایات جاری کردی گئی ہیں‘ اس موقع پر وزیر بلدیات اور وزیر رونیو نے صحافیوں کے 210 پلاٹس کے حوالے سے بریفنگ لی اور ہدایات دی کہ ایل ڈی اے کے ڈی جی اور دیگر افسران فوری طور پر صحافیوں کے پلاٹس کے معاملے پر نظرثانی کریںاور 210 پلاٹس کے لیے زمین مختص کی جائے اور انہیں فوری طور پر زمین الاٹ کی جائے۔ انہوںنے کہا کہ گزشتہ روز بھی صحافیوں کی جانب سے سندھ اسمبلی کے باہر اس سلسلے میں احتجاج کیا گیا اور سندھ اسمبلی میں بھی اس پر ہم نے صحافیوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کا معاملہ جلد سے جلد حل کرلیا جائے گا۔ اجلاس میں دونوں صوبائی وزرانے کہا کہ ہماری اولین ترجیح ہے کہ صوبے بھر میں ہائوسنگ اسکیموں کو جلد سے جلد زمین کی الاٹمنٹ کردی جائے تاکہ وہاں پلاٹس حاصل کرنے والے اپنے مکانات تعمیر کرسکیں۔ تفصیلات کے مطابق وزیر بلدیات سندھ سعید غنی اور وزیر رونیو مخدوم محبوب الزماںکی زیر صدارت ریونیو وزیر کے دفتر میں اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں سنیئر ممبر بورڈ آف ریونیو شمس الدین سومرو، اسپیشل سیکرٹری بلدیات اسحاق مہر، ڈی جی ایل ڈی اے بدر جمیل میندرو، ایل ڈی اے کے ایگزیکیٹو انجینئر آغا محمد علی، لاء آفیسر عرفان ابڑو، کنسلٹینٹ لینڈ قاضی خالد،اسسٹنٹ اکائونٹس آفیسر ایل ڈی اے مزمل احمد سمیت دیگر افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں ایل ڈی اے اسکیم 42 کی زمین کی میوٹیشن کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر صوبائی وزراء نے اس بات پر زور دیا کہ اسکیم 42 میں 1984 ء سے 2008 ء تک ہزاروں افراد کو مختلف ادوار میں قرعہ اندازی کے ذریعے پلاٹس فراہم کیے گئے ہیں لیکن زمین کی میوٹیشن اور دیگر قانونی معاملات کے باعث ان افراد کو اب تک پلاٹس کا قبضہ نہیں دیا جاسکا ہے، اس لیے اس معاملے کا جلد سے جلد قانونی حل نکال کر ان پلاٹس کے مالکان کو قبضہ دیا جائے تاکہ وہ وہاں اپنے گھر تعمیر کرسکیں۔ اس موقع پر سنیئر ممبر بورڈ آف ریونیو نے کہا کہ زمین کی میوٹیشن میں تین مختلف مراحل ہیں، جن میں پہلے جو زمین ایل ڈی اے کو دی گئی تھی، اس کی اسکرونٹی کمیٹی نے نرخ فائنل کیے تھے اور اس کی کچھ ادائیگی بھی ایل ڈی اے نے کردی تھی تاہم اب بھی ادائیگی ہونا باقی ہے۔