ریکوڈک کیس میں جرمانہ

705

عالمی بینک کے بین الاقوامی سرمایہ کاری امور سے متعلق تنازعات کے مرکز میں قائم ٹریبونل نے پاکستان میں ریکوڈک کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے جس کے مطابق پاکستان کو 6 ارب ڈالر غیر ملکی کمپنی کو دینے ہوں گے۔ اگر یہ رقم نہ دی گئی تو بیرون ملک پاکستان کے اثاثہ جات ضبط کرکے یہ رقم ادا کرنے کا حکم بھی دیا جاسکتا ہے۔ ٹریبونل کی تاریخ میں یہ کسی ملک پر کیا جانے والا سب سے بڑا جرمانہ ہے۔ لیکن زیادہ افسوسناک ٹریبونل کے ریمارکس ہیں کہ جن میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی عدالت عظمیٰ معاہدہ کالعدم کرتے وقت عالمی قوانین سے نابلد تھی۔ اگرچہ یہ ریمارکس ہیں ان کا فیصلے سے تعلق نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پاکستان کے عدالتی نظام پر طمانچہ ہے اس حوالے سے پاکستانی عدالت عظمیٰ کو اس ٹریبونل کو جواب دینا چاہیے، یہ درست ہے کہ ریکوڈک کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے ملک کو اربوں ڈالر جرمانہ دینا پڑے گا لیکن اب وقت آگیا ہے کہ یہ غلط معاہدہ کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے اور 6 ارب ڈالر ان سے وصول کیے جائیں۔ ریکوڈک معاملے میں یہی تو کہا گیا تھا کہ یہ معاہدہ قومی مفاد کے خلاف ہے اور قومی مفاد کے منافی معاہدے کو منسوخ کرکے جرمانہ ادا کرنا کوئی برا سودا نہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ایسا معاہدہ جن لوگوں نے کیا تھا ان کو اب ازسرنو شامل تفتیش کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا سنجیدہ حلقہ بار بار یہ مطالبہ کررہا ہے کہ سی پیک کے معاہدے اور اس کی شرائط سے قوم کو باخبر کیا جائے۔ کل کو اس معاہدے کے بارے میں کوئی اعتراض ہوا یا کسی نے یہ معاہدے منسوخ کیے تو شاید ملک ہی بیچنا پڑ جائے۔ سی پیک کے بارے میں شبہات پہلے ہی ظاہر کیے جارہے ہیں کہ سری لنکا اور افریقا میں چین نے ایسے ہی معاہدے کیے تھے اور پھر سری لنکا کا جزیرہ اس کے قبضے میں چلا گیا۔ پاکستان میں بڑے سے بڑے ماہر معاشیات کی صلاحیت حفیظ شیخ جتنی ہے۔ ٹیکس کے سب سے بڑے ماہر کی صلاحیت شبر زیدی جتنی ہے۔ سیاست کے بارے میں تو تبصرہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں دنیا دیکھ رہی ہے اور خود وزیراعظم کے اہم ترین وزیر شیخ رشید نے انہیں ڈونلڈ ٹرمپ سے ملا دیا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سیاست کے سب سے بڑے رہنما کی صلاحیت کا کیا عالم ہے۔ باقی وزرا تو صلاحیتوں سے عاری ہیں۔ فواد چودھری، فردوس عاشق، فیصل واوڈا وغیرہ تو صلاحیت کے حوالے سے ناپے بھی نہیں جاسکتے۔ ریکوڈک کا معاملہ بہت سادہ اور آسان نہیں ہے۔ اس ٹریبونل میں پاکستان کی طرف سے پیش ہونے والے معروف ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند ہیں جن کی گواہی کو بنیاد بناتے ہوئے یہ فیصلہ دیا گیا ہے۔ ان کا بیان تھا کہ اس منصوبے سے پاکستان کو سالانہ ڈھائی ارب ڈالر ملنے تھے جبکہ مجموعی طور پر 131 ارب ڈالر حاصل ہونے تھے لہٰذا معاہدے کی پاسداری نہ کرنے اور سود و ہرجانے کی رقم ملا کر 5 ارب 97 کروڑ ڈالر ادا کرنے پڑیں گے۔
پاکستانی وزارت قانون کا دعویٰ ہے کہ ہم نے تو 16 ارب ڈالر ہرجانے کے دعوے کو 6 ارب ڈالر تک کم کروا کر دس ارب ڈالر بچا لیے۔ یہ اور بات ہے کہ ٹونی بلیئر کی اہلیہ کو دیے جانے والے اخراجات اور مقدمے پر دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں لیکن افتخار چودھری کے فیصلے سے اختلاف کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس نکتے پر غور کریں کہ پاکستانی معدنیات غیر ملکی کمپنیاں نکالیں گی۔ اس کے عوض وہ پاکستان کو مجموعی طور پر 131 ارب ڈالر دیتیں۔ مسئلہ یہی تھا کہ وہ کمپنیاں ان ذخائر اور زمینوں سے کیا لے کر جائیں گی اس کی نگرانی پاکستان نہیں کرسکتا تھا۔ کسی کو کیا معلوم کہ سونا، تانبا یا اور دیگر قیمتی معدنیات کس مقدار میں یہ کمپنیاں لے جارہی ہیں۔ اس قسم کے معاہدے آج کل گیس کے حوالے سے بھی کیے گئے ہیں۔ پاکستانی گیس پاکستانیوں کے لیے نکالی جارہی ہے لیکن اب وہ بین الاقوامی کمپنیوں سے بین الاقوامی شرح سے خریدی جرہی ہے جس کے نتیجے میں گیس مہنگی ہورہی ہے۔ ٹیتھیان کمپنی کو 1993ء میں بلوچستان کے علاقے چاغی میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کا لائسنس جاری کیا گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد 1998ء میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے بھی کردیے تھے اس سے چاغی میں کسی غیر ملکی ادارے کی موجودگی کا معاملہ بھی حساس ہوگیا تھا۔ جس وقت افتخار محمد چودھری نے ریکوڈک کا لائسنس منسوخ کیا تھا اسی وقت ٹیتھیان نے عالمی عدالت سے رجوع کرلیا تھا۔ 2011ء سے اب تک اور موجودہ حکومت کو بھی معلوم تھا کہ یہ مقدمہ چل رہا ہے۔ جرمانہ بھی ہوگا اس حوالے سے حکومتوں نے کوئی کام نہیں کیا حالانکہ اگر ٹھیکہ دینے کے معاملے میں رشوت دینے کا معاملہ ثابت کردیا جاتا تو معاملہ بالکل برعکس ہو جاتا۔ جو بھی کہا جائے پاکستان سمیت دنیا بھر میں اتنے بڑے بڑے ٹھیکے کک بیکس (رشوت) کے بغیر نہیں دیے جاتے۔ تفصیل سے تحقیقات کی جاتی تو پتا چلتا کوئی نہ کوئی ’’بڑا‘‘ لپیٹ میں آتا۔ اس زمانے میں یہ الزامات بھی لگے تھے کہ رشوت لی گئی ہے۔ تکلیف دہ بات یہی ہے کہ حکمران کوئی بھی ہوں انہیں قومی دولت سے کوئی غرض نہیں ان کا دل نہیں دکھتا کہ جرمانہ ہو رہا ہے تو ہوا کرے۔ ان کا تو مضحکہ خیز دعویٰ ہے کہ دس ارب ڈالر بچا لیے۔ حکومت اس معاملے پر بھی کمیشن بنانے کی بات کررہی ہے لیکن قبل از وقت اگر کوئی کام کرلیا جائے تو کیا قیامت آجائے گی۔ یہی موقع ہے کہ سی پیک کے بارے میں بھی ایک کمیشن بنا لیا جائے جو یہ معلوم کرے کہ معاہدے کی شرائط کیا ہیں۔ پاکستان کو کیا ملے گا۔ پاکستانی زمین، گوادر کا علاقہ، تنصیبات وغیرہ محفوظ ہیں کہ نہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کی نااہلی کو سامنے رکھتے ہوئے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ سی پیک کے قرضوں کی ادائیگی ممکن نہیں رہے گی اور پاکستان جرمانے بھرتے بھرتے قیمتی اثاثوں سے محروم ہو جائے گا۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ خدانخواستہ ایسی صورت حال ہوگی تو کوئی اور حکمران ہوگا وہ سابق حکمرانوں پر الزام تھوپ کر پرسکون ہو جائے گا۔ اگر عالمی سیاست کاروں کے کھیل کو مدنظر رکھا جائے تو اسے باقاعدہ منصوبہ کہا جاسکتا ہے کہ رلا رلا کر آئی ایم ایف نے 6 ارب ڈالر قرضہ ٹکڑوں میں دینے کا اعلان کیا تھا اور اتنی ہی رقم کا جرمانہ کردیا گیا ہے۔ اب اگر آئی ایم ایف کے قرضے پر حکومت ہوا میں اڑ رہی تھی تو یہ رقم بھی گئی۔ پاکستان وہیں کھڑا ہے۔ بلکہ جرمانہ الگ اور آئی ایم ایف کے قرضوں کا سود الگ۔ گویا اب ملک چلانے کے لالے پڑنے والے ہیں۔ جہاں تک عدالت عظمیٰ کے بین الاقوامی قوانین سے نابلد ہونے کا تبصرہ سے عدالت عظمیٰ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے اگر اس کی ساکھ پر ایسے تبصرے کیے جائیں اور وہ خاموش رہے تو کل کو کسی بھی جانب سے کچھ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ویسے تو پاکستان میں عدالتوں کے بہت سے فیصلوں پر یہی تبصرہ صادق آتا ہے۔ ایک عدالت ایک فیصلہ کرتی ہے دوسری کئی برس بعد اسے تبدیل کر دیتی ہے۔ ماتحت عدالت کے فیصلے پر کوئی ایکشن نہیں ہوتا۔ ماتحت عدالت نے فیصلہ غلط دیا تھا تو اس کو سزا ملنی چاہیے جج سے اختیارات لینے چاہئیں اگر اس نے فیصلہ درست دیا تھا تو اب کیوں بدلا گیا۔ یہ سب کچھ روز مرہ کا معاملہ ہے۔ لیکن بہرحال غیر ملکی ادارے کی جانب سے ایسے تبصرے قابل گرفت ہونے چاہئیں۔ حکومت پاکستان بھی شریف و زرداری خاندان کو لٹکانے یا زمین میں گاڑنے کے لیے ساری قوت صرف کررہی ہے اور اپوزیشن بھی حکومت گرانے میں لگی ہوئی ہے۔ ملک چلانے کا کام کون کرے گا۔ پہلے تو کہا جاتا تھا کہ فوج ہی سنبھالے گی لیکن اب تو فوج بھی بار بار یہ اعلان کرتی ہے کہ اس حکومت کو موقع دیا جائے اس کے ساتھ ہیں۔ اسے کوئی برا نہ کہے۔ ریکوڈک کے حوالے سے جرمانہ عین متوقع تھا۔ لیکن یہ فیصلہ اور جرمانہ پاکستانی سیاستدانوں اور ملک چلانے والوں کے لیے کھلا پیغام دے گیا ہے۔