طیب اردگان کی معاشی پالیسی

944

ڈاکٹر سیدمحبوب
ملکی زرمبادلہ کے ذخائر قلیل عرصے میں 26 ارب 50 کروڑ ڈالر سے بڑھ کر 92 ارب 20 کروڑ ڈالر ہوگئے۔ افراط زر کی شرح 32 فی صد سے کم ہو کر صرف ایک سال کی قلیل ترین مدت میں 9 فی صد ہوگئی۔ ترکی کا بجٹ خسرہ یورپ کے 21 ممالک سے کم تھا۔ طیب اردوان نے غربت اور معاشی مشکلات کا سامنا کیا تھا۔ وہ غریبوں اور ملازم پیشہ افراد کی مشکلات سے آگاہ تھے۔ انہوں نے مزدوروں کو ملک میں باعزت اور باوقار مقام دلانے اور نجی شعبوں میں ملازم افراد کو غیر یقینی اور استحصال کے ماحول سے نکالنے کے لیے لیبر ایکٹ کا نفاذ کیا۔ انہوں نے نجی شعبے کے ملازمین کے حقوق میں توسیع کی اور فیکٹریوں، ملوں اور نجی دفاتر میں کام کو 45 گھنٹوں فی ہفتہ تک محدود کیا اور اوور ٹائم کو اوسطاً 2 گھنٹہ یومیہ تک محدود کیا۔ انہوں نے کمپنیوں اور دفتروں کے لیے یہ لازم قرار دیا کہ وہ ملازمین کے ساتھ تحریری معاہدہ کریں اور غیر قانونی طور پر ملازمت سے برطرف افراد کو قانونی مدد فراہم کی گئی اور انہیں حکومت کی جانب سے الائونس دیا جائے گا۔ طیب اردوان اس بات کے قائل ہیں کہ تعلیم کو اولین ترجیح دیے بغیر اور معیاری تعلیم تک رسائی کا حق ہر شہری کو دیے بغیر پائدار ترقی نہیں ہوسکتی۔ ان کے برسراقتدار آنے سے قبل تعلیم کا بجٹ محض 7 ارب 50 کروڑ میرا تھا جسے انہوں نے 5 گنا بڑھا کر 34 ارب لیرا کردیا۔ یہ قومی بجٹ میں کسی بھی شعبے کے لیے سب سے زیادہ مختص کی جانے والی رقم تھی۔ اس سے قبل بجٹ کا سب سے زیادہ حصہ فوج کے لیے مختص کیا جاتا تھا۔ لازمی تعلیم کے عرصے کو 8 سال سے بڑھا کر 12 سال کردیا گیا۔ ترکی حکومت نے ’’آئیو بچیو! اسکول پڑھیں‘‘ کے عنوان سے مہم کا آغاز کیا۔ طلبہ و طالبات کو مفت درسی کتب فراہم کی گئیں۔ ترکی کے ہر شہر میں یونیورسٹی قائم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی اور صرف 9 سال کے عرصے میں جامعات کی تعداد 98 سے بڑھا کر 186 کردی گئی۔ یعنی 10 سال میں 88 یونیورسٹیوں کا اضافہ گویا ایک سال میں اوسطاً 2 یونیورسٹیوں کا اضافہ ہوتا رہا۔ یعنی کمال ہوگیا۔ ایک کروڑ 70 لاکھ طلبہ و طالبات اور اساتذہ میں کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ تقسیم کیے گئے۔
طیب اردوان نے انفرااسٹرکچر کی طرف بھی توجہ دی اور ائرپورٹس کی تعداد 26 سے بڑھ کر 50 ہوگئی۔ ترکی کی آزادی یعنی 1923ء سے لے کر 2002ء تک 79 سال میں محض 6 ہزار کلو میٹر روڈ تعمیر کیے گئے، جب کہ طیب اردوان کے دور میں 2011ء تک صرف 8 سال میں 13 ہزار 500 کلو میٹر روڈ کی تعمیر ہوئی جس سے حادثات میں 50 فی صد کمی آئی۔ ہائی اسپیڈ ریلوے لائن تعمیر کی گئی اور 2009ء سے 2017ء تک صرف 8 سال میں ایک ہزار 86 کلو میٹر ریلوے لائن بچھائی گئی، جب کہ 5 ہزار 4 سو 49 کلو میٹر ریلوے لائن کی مرمت کی گئی۔ 2004ء میں زیر سمندر ریلوے سرنگ کی تعمیر کا جو دنیا کی سب سے گہری زیر سمندر ریلوے سرنگ ہے، ترکی سالانہ 11 لاکھ 40 ہزار بسیں اور ٹرک بناتا ہے اور اس کی متعدد کمپنیوں کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ بسوں اور ٹرکوں کی پیداوار کرنے والی کمپنیوں میں ہوتا ہے۔ استنبول ائر پورٹ پر سالانہ 3 کروڑ 18 لاکھ مسافر آتے ہیں۔ ویل کمپنی یورپ کی سب سے زیادہ ٹی وی بنانے والی کمپنی ہے۔ دنیا کے 100 بہترین ہوٹلوں میں سے 11 کا تعلق ترکی سے ہے اور سالانہ 3 کروڑ لوگ سیاح کی حیثیت سے ترکی آتے ہیں۔ ترکی کی مجموعی قومی آمدنی 2 ہزار ایک سو 86 ارب ڈالر، فی کس آمدنی 27 ہزار ڈالر، برآمدات 168 ارب ڈالر ہیں۔
تبدیلی محض نعروں سے نہیں آتی، تبدیلی کے لیے مخلص، اہل، باکردار، باصلاحیت قیادت اور مشینری جذبہ رکھنے والی کابینہ چاہیے۔ سال میں سرکاری سطح پر دو عیدیں منوانے والے، آئی ایم ایف کی ٹیم کے ذریعے معاشی پالیسیاں چلانے والے اور سابقہ حکومتوں کے موروثی سیاستدان کوئی مثبت، تعمیری اور حقیقی تبدیلی نہیں لاسکتے۔ قوم کو اپنا مزاج تبدیل کرنا ہوگا۔ اہل، دیانت دار، پڑھی لکھی اور فرض شناس قیادت کو منتخب کرنا ہوگا۔ اس تصور کو ذہن سے نکالنا ہوگا کہ سیاست صرف کرپٹ، بددیانت، جھوٹے اور ابن الوقت لوگوں کا کام ہے جب کہ دیانت دار، اہل تقویٰ، دین دار اور اللہ و رسول کے ساتھی سچی محبت کرنے والوں کو صرف مسجدوں تک محدود رہنا چاہیے۔ اگر قوم نے اپنے مزاج میں تبدیلی پیدا نہ کی اور پارٹیاں بدل کر آنے والے انہی جاگیرداروں، وڈیروں، ابن الوقت لوٹوں، سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں، فرنگی سامراج اور قصر ابیض کے وفاداروں اور نمک خواروں کو اپنے سروں پر بٹھاتے رہے تو تبدیلی کبھی بھی نہیں آئے گی۔