بھارت کا بڑھتا ہوا دفاعی بجٹ اور پاکستان

426

 

 

دنیا میں اسلحے کی تیاری، خریدار ی اور دوسری جنگی سرگرمیوں پر خرچ کرنے والے ملکوں میں امریکا سر فہرست ہے۔ امریکا چین سے تین گنا زیادہ بجٹ دفاعی اور جنگی تیاریوں پر خرچ کرتا ہے۔ اس فہرست میں امریکا کے بعد چین کا نام آتا ہے۔ جو 2017 میں بھارت سے تین گنا زیادہ بجٹ جنگی تیاریوں پر خرچ کرتا تھا۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ نامی ایک تھنک ٹینک نے 2017 ہی میں اپنی جاری کردہ رپورٹ میں کہا تھا کہ چین کے فوجی اخراجات 228 بلین ڈالر جبکہ اسی سال بھارت کے فوجی اخراجات 64 بلین ڈالر تھے۔ اسی سال بھارت نے اپنی مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی کا 2.5فی صد جنگی تیاریوں کے لیے استعمال کیا جبکہ چین نے اپنی مجموعی قومی پیداوا ر کا صرف 1.9فی صد حصہ دفاعی سرگرمیوں پر خرچ کیا۔ گویا کہ بھارت چین کی نسبت اپنی مجموعی قومی پیدوار کا زیادہ حصہ جنگی تیاریوں یا دفاعی سرگرمیوں پر خرچ کرتا ہے۔ یہ بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ بھارت میں جنگی سرگرمیوں کو بڑھانے کا جنون بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ رپورٹس بتا رہی ہیں کہ اگر بھارت نے اپنا دفاعی بجٹ بڑھانے کی یہی رفتار جاری رکھی تو 2025,27 تک بھارت اپنا دفاعی بجٹ دوگنا یعنی120 سے 130 بلین ڈالر کردے گا۔
اس پس منظر میں مودی حکومت نے دوبار منتخب ہونے کے بعد اپنا پہلا بجٹ پیش کیا۔ وزیر خزانہ سیتارمن نے بجٹ تقریر میں دفاعی بجٹ میں آٹھ فی صد اضافے کا اعلان کیا ہے۔ اس سال دفاع کے لیے 318931 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جو گزشتہ سال کی نسبت آٹھ فی صد زیادہ ہے۔ دفاع سے وابستہ افراد کی پنشن وغیرہ اس میں شامل نہیں۔ جس کے لیے 112089 کروڑ کی رقم الگ سے رکھی گئی ہے، بجٹ تقریر میں دفاع سے متعلق باقی تفصیلات کو پردۂ اخفا میں رکھا گیا ہے۔ بھارتی خاتون وزیر خزانہ نے دعویٰ کیا کہ اگلے چند برس میں بھارت امریکا اور چین کے بعد تیسری بڑی معیشت ہوگا۔ بھارت کے دفاعی بجٹ میں اضافہ اس وقت ہوا ہے جب پاکستان نے اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ نہیں کیا۔ اس کے قطعی برعکس بھارت نے اپنے دفاعی بجٹ میں اضافے کا راستہ اپنایا۔ بھارت کا یہی رویہ خطے میں اسلحے کی نہ ختم ہونے والی دوڑ کا باعث کا بنا ہے۔
بھارت خود کو چین کے ہم پلہ ثابت کرنے کے لیے دفاعی شعبے میں اخراجات اور ترقی کے لیے بگٹٹ دوڑ رہا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ بھارت میں کروڑوں افراد خطِ غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بھارت کے عام اور مفلوک الحال شہری کی زندگی کی عکاسی بالی ووڈ کی مشہور فلم ’’سلم ڈوگ‘‘ میں کی گئی تھی۔ صحت اور تعلیم پر خرچ ہونے والی رقم اسلحہ ساز کمپنیوں کی تجوریوں میں جائے تو عوام کی یہی درگت بنتی ہے۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کے کئی مسائل مسلسل سلگتے چلے آرہے ہیں جن میں کشمیر کا مسئلہ سرفہرست ہے۔ اس وجہ سے دونوں ملک مستقل کشیدگی اور آویزش کی حالت میں ہیں۔ بھارت پاکستان کے خلاف نہ صرف یہ کہ خفیہ جارحانہ عزائم رکھتا ہے بلکہ عملی جارحیت سے چوکتا بھی نہیں۔ سقوط ڈھاکا میں بھارت کے کردار اور ایک اور سقوط کو روکنے کے لیے ہی پاکستان کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا فیصلہ کرنا پڑا۔
بھارت نے خود کو مصنوعی طور پر چین کے ہم پلہ ثابت کرنے کے نام پر اسلحہ کے انبار لگائے مگر چین کے ساتھ وہ ایک ہی جنگ لڑ کر تھک گیا اور اس کے بعد عملی تصادم کے کام سے ہمیشہ کے باز آیا۔ حتیٰ کہ حالیہ برسوں جب بھارتی فوج نے دوکلام میں پیش قدمی کی تو چینی فوج نے آنکھیں اور مُکے دکھا کر ہی بھارتی فوج کو پسپا کر دیا۔ پاکستان اور بھارت کا معاملہ اس سے قطعی مختلف ہے۔ بھارت پاکستان کے ساتھ کئی جنگیں لڑ چکا ہے اور اب بھی کئی محاذوں پر درپردہ جنگیں یعنی پراکسی وار چھیڑے ہوئے ہے۔ بالخصوص پاکستان کے ملٹی کلچرل معاشرے میں مختلف قومیتوں کے اندر فالٹ لائنز تلاش کرکے انہیں ایکٹو کر دینا بھارت کا محبوب مشغلہ ہے۔ بھارت کی اس سوچ اور حکمت عملی کے باوجود پاکستان نے اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ نہ کر کے اچھا فیصلہ کیا۔ پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کی صورت میں کم ازکم ڈیٹرنس پیدا کر چکا ہے۔ اب اسے بھارت کی ہر توپ کے مقابلے میں توپ ہر میزائل کے مقابلے میں میزائل لانے اور ہر فوجی کے مقابل فوجی کھڑا کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ پاکستان کی معیشت کو عدم توازن کا شکار کرنا اب بھارت کی خواہش ہو سکتی ہے مگر پاکستان کے پالیسی سازوں کو اب زیادہ توجہ معاشی استحکام پر دینی چاہیے کیوںکہ اب معیشت کا عدم استحکام ریاستوں کے لیے بیرونی جارحیت سے زیادہ سنگین چیلنج کی شکل اختیا کر تا جا رہا ہے۔ عوام کا میعار زندگی بلند کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے بھارت چین کے مقابلے کے جو خواب دیکھ رہا ہے اسے خواب دیکھنے کے لیے تنہا چھوڑ دینا چاہیے۔ وقت خود اس جنونیت اور عدم توازن کا حساب لے گا مگر پاکستان کو بھارت کی اندھی تقلید کے بجائے اپنے داخلی حالات کے مطابق اپنی دفاعی پالیسی اور بجٹ ترتیب دینا چاہیے اور اب اس کا آغاز ہو چکا ہے۔