سیدنا عثمان ؓ کی سفارت کاری

662

 

صفی الرحمٰن مبارکپوری

صلح حدیبیہ کے موقع پر] رسول اللہؐ نے سوچا کہ ایک سفیر روانہ فرمائیں جو قریش کے سامنے مؤکد طریقے پر آپ کے موجودہ سفر کے مقصد وموقف کی وضاحت کردے۔ اس کام کے لیے آپؐ نے سیدنا عمر بن خطابؓ کو بلایا لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے معذرت کی کہ اے اللہ کے رسول! اگر مجھے اذّیت دی گئی تو مکہ میں بنی کعب کا ایک فرد بھی ایسا نہیں جو میری حمایت میں بگڑ سکتا ہو۔ آپؐ سیدنا عثمان بن عفانؓ کو بھیج دیں۔ ان کا کنبہ قبیلہ مکہ ہی میں ہے۔ وہ آپؐ کا پیغام اچھی طرح پہنچادیں گے۔ آپؐ نے عثمانؓ کو بلایا۔ اور قریش کے پاس روانگی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: انہیں بتلادو کہ ہم لڑنے نہیں آئے ہیں۔ عمرہ کرنے آئے ہیں۔ انہیں اسلام کی دعوت بھی دو۔ آپؐ نے عثمانؓ کو یہ حکم بھی دیا کہ وہ مکہ میں اہل ایمان مردوں اور عورتوں کے پاس جاکر انہیں فتح کی بشارت سنادیں۔ اور یہ بتلادیں کہ اللہ عزوجل اب اپنے دین کو مکہ میں ظاہر وغالب کرنے والا ہے۔ یہاں تک کہ ایمان کی وجہ سے کسی کو یہاں روپوش ہونے کی ضرورت نہ ہوگی۔
عثمانؓ آپؐ کا پیغام لے کر روانہ ہوئے۔ مقام بلدح میں قریش کے پاس سے گزرے تو انہوں نے پوچھا: کہاں کا ارادہ ہے؟ فرمایا: مجھے رسول اللہؐ نے یہ اور یہ پیغام دے کر بھیجا ہے۔ قریش نے کہا: ہم نے آپ کی بات سن لی۔ آپ اپنے کام پر جائیے۔ ادھر سعید بن عاص نے اْٹھ کر عثمانؓ کو مرحبا کہا۔ اور اپنے گھوڑے پر زین کس کر آپ کو سوار کیا۔ اور ساتھ بٹھا کر اپنی پناہ میں مکہ لے گیا، وہاں جاکر عثمانؓ نے سربراہان ِ قریش کو رسول اللہؐ کا پیغام سنایا۔ اس سے فارغ ہوچکے تو قریش نے پیشکش کی کہ آپ بیت اللہ کا طواف کرلیں۔ مگر آپ نے یہ پیش کش مسترد کردی اور یہ گورا نہ کیا کہ رسول اللہؐ کے طواف کرنے سے پہلے خود طواف کرلیں۔
سیدنا عثمانؓ اپنی سفارت کی مہم پوری کر چکے تھے، لیکن قریش نے انہیں اپنے پاس روک لیا۔ غالباً وہ چاہتے تھے کہ پیش آمدہ صورتِ حال پر باہم مشورہ کرکے کوئی قطعی فیصلہ کرلیں اور عثمانؓ کو ان کے لائے ہوئے پیغام کا جواب دے کر واپس کریں، مگر عثمانؓ کے دیر تک رْکے رہنے کی وجہ سے مسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ انہیں قتل کردیا گیا ہے۔ جب رسول اللہؐ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فرمایا: ہم اس جگہ سے ٹل نہیں سکتے یہاں تک کہ لوگوں سے معرکہ آرائی کرلیں۔ پھر آپ نے صحابہ کرامؓ کو بیعت کی دعوت دی۔ صحابہ کرام ٹوٹ پڑے۔ اور اس پر بیعت کی کہ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ نہیں سکتے۔ ایک جماعت نے موت پر بیعت کی۔ یعنی مرجائیں گے مگر میدان ِ جنگ نہ چھوڑیں گے۔ سب سے پہلے ابو سنان اسدی نے بیعت کی۔ سلمہ بن اکوعؓ نے تین بار بیعت کی۔ شروع میں، درمیان میں اور اخیر میں۔ رسول اللہؐ نے خود اپنا ہاتھ پکڑکر فرمایا: یہ عثمان کا ہاتھ ہے، پھر جب بیعت مکمل ہوچکی تو عثمانؓ بھی آگئے اور انہوں نے بھی بیعت کی۔ اس بیعت میں صرف ایک آدمی نے جو منافق تھا شرکت نہیں کی، اس کا نام جد بن قیس تھا۔
رسول اللہؐ نے یہ بیعت ایک درخت کے نیچے لی۔ عمرؓ دست مبارک تھامے ہوئے تھے۔ اور معقل بن یسارؓ نے درخت کی بعض ٹہنیاں پکڑ کر رسول اللہؐ کے اوپر سے ہٹا رکھی تھیں۔ اسی بیعت کا نام بیعت ِ رضوان ہے۔ اور اسی کے بارے میں اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے:
’’اللہ مومنین سے راضی ہوا۔ جب کہ وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے‘‘۔ (الفتح 18)