ایک اور ویڈیو…

494

سمجھ میں نہیں آتا چھوٹی چھوٹی ویڈیوز دیکھیں یا مار دھاڑ سے بھرپور فلم ’’مائی نیم از خان‘‘ دیکھیں… اگر چہ یہ نام بھارتی فلم کا چربہ ہوگا لیکن یہاں تو چربی در چربہ ہوتا ہے ہر چیز کسی نہ کسی چیز کا چربہ نکلتی ہے۔ میاں نواز شریف کے خلاف مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے جج صاحب نے سسلین مافیا کا نام لیا، گاڈ فادر کا ذکر کیا، گویا یہ چربہ تھا۔ پاکستان میں آصف زرداری صاحب کے حوالے سے بھی کئی بھارتی فلموں کا نام لیا جاتا ہے۔ چیئرمین نیب کی ویڈیو چل چکی اب احتساب عدالت کے جج کی ویڈیو آگئی، حکومت اور وزراء نے تو فوراً کہہ دیا کہ سب جھوٹ ہے۔ بات ختم ہوجانی چاہیے جب حکومت کے وزراء کہہ رہے ہیں کہ ویڈیو جھوٹی ہے تو جج صاحب کو بھی مان لینا چاہیے۔ بلاوجہ یہ کہہ دیا کہ ویڈیو میں گفتگو سیاق و سباق سے الگ تھی۔ انہیں بھی یہی کہنا چاہیے تھا کہ اب کیسی مقدمے کی بھی ضرورت نہیں تمام وزیر کہہ رہے ہیں کہ ویڈیو جھوٹی ہے۔ بس سوال یہ ہے کہ اگر ویڈیو جھوٹی ہے تو مختلف مواقع پر ہونے والی گفتگو میں جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہ تو ان ہی کا بیان ہے۔ چلیں یہ بھی مان لیا جائے کہ اس ویڈیو کا میاں نواز شریف کے خلاف مقدمے سے تعلق نہیں تھا۔ لیکن سیاق و سباق کو بھی اب ٹھیک کرنا ہوگا۔ یہ کام جج صاحب نہیں کریں گے تو کوئی تو کرے گا۔
جوڈیشل کمیشن بننے کی بات بھی کی جارہی ہے لیکن کمیشن بنے یا نہ بنے اگر جج متنازع ہوجائے تو کیا کرنا چاہیے۔ ہماری رائے تو وہی ہے جو میاں نواز شریف کے بارے میں موجودہ حکمرانوں کی تھی… کہ اب تو الزام لگ گیا استعفیٰ دو… فلاں فلاں نے پاناما لیکس میں نام آنے پر استعفیٰ دے دیا تھا نواز شریف بھی دیں۔ انہوں نے استعفیٰ نہیں دیا تو ان کو نا اہل کردیا گیا۔ تو کیا جج صاحب احتیاطاً ہی سہی استعفیٰ دیںگے۔ ججوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر ان کا کوئی سابق کلائنٹ کوئی مقدمہ لے آئے تو جج صاحب ’’ناٹ بفورمی‘‘ میرے سامنے یہ کیس نہ لایا جائے لکھ کر الگ ہوجاتے ہیں۔ کسی جج کے بارے میں فریقین میں سے کوئی ٹھوس دلائل کے ساتھ اعتراض داخل کردے تو وہ بھی مقدمے سے الگ ہوجاتا ہے تاکہ عدلیہ کی ساکھ متاثر نہ ہو۔ لیکن ارشد ملک صاحب کے پاس ہائی پروفائل مقدمات جوں کے توں موجود ہیں۔ اس کا جواب کون دے گا۔ احتساب عدالت، چیئرمین نیب، عدالت عظمیٰ، حکومت یا کوئی اور۔ اب تو وزیراعظم نے بھی اس حوالے سے جرأت کا اظہار کردیا ہے کہ حکومت فریق نہیں بنے گی۔ عدلیہ نوٹس لے۔
ایک چھوٹی سی ویڈیو لیک ہوتے ہی شریفوں اور زرداریوں کے خلاف نیب کی سرگرمی حد سے زیادہ بڑھ گئی تھی۔ ایک ویڈیو کے بارے میں بتایا گیا کہ اس کے بعد چیئرمین نیب دس منٹ میں حکومت گرانے کے بیان کو بھول گئے۔ اب ویڈیو آئی ہے تو اس میں بھی ایک ویڈیو کا ذکر ہے جس کی بنیاد پر مریم نواز کہہ رہی ہیں کہ جج دبائو میں آگئے تھے اور انہوں نے دبائو میں نواز شریف کو سزا سنادی۔ اب وضاحتوں کا دور دورہ ہے۔ حکومتی وضاحتیں دلچسپ ہیں۔ ایک وزیر نے کہہ دیا کہ اب تو جج نے کہہ دیا کہ میں نے دبائو میں فیصلہ نہیں دیا۔ ویڈیو جھوٹی ہے۔ تو بھائی نواز شریف اور زرداری بھی تو یہی کہہ رہے ہیں کہ الزامات جھوٹے ہیں ہم نے کوئی کرپشن نہیں کی۔ اگر متنازع لوگوں کے بیانات کی بنیاد پر فیصلے کرنے ہیں تو سارے مجرم باہر ہوں گے پھر عدالتوں کی ضرورت ہی نہیں۔ جج کے حوالے سے متنازع ویڈیو سامنے آنے کے بعد سے عدالت عظمیٰ کی جانب سے نوٹس نہ لیا جانا بھی احتساب عدالت بلکہ عدالتی نظام کو مشتبہ بنارہا ہے بلکہ اب تو زیادہ ضروری ہے کہ فوری نوٹس لے کر دودھ کا دودھ پانی کا پانی کیا جائے۔ مریم نواز کو طلب کیا جائے کہ آپ مزید ویڈیو کا دعویٰ کررہی ہیں وہ کہاں ہیں!! جوابی کارروائی یا دھمکی کے طور پر حکومت کی جانب سے بھی یہ خبر چلوائی گئی ہے کہ نواز شریف خاندان کیخلاف کرپشن کے مزید ثبوت لائے جائیںگے۔ لیکن معاملہ نئے ثبوتوں اور نئی ویڈیوز کا نہیں ہے۔ جو سامنے آگیا ہے اس کی بات کی جائے، قانونی ماہرین نے جو صورتحال بتائی ہے اس کے مطابق تو اصل ویڈیو سامنے لانی ہوگی، اس کے بغیر فرانزک کیسے ممکن ہے۔ لیکن ویڈیو بنانے والا عدالت میں کیوں آئے گا۔ اگر کسی
نے ویڈیو میں ٹیمپرنگ کی ہے تو وہ کیوں بتائے گا۔ اس معاملے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ جج صاحب نے ویڈیو میں ہونے والی گفتگو کے بارے میں یہ نہیں کہا کہ یہ میری گفتگو نہیں ہے۔ لہٰذا اس پر تو بات ہونی چاہیے کہ جج ایسی گفتگو کیوں کرتے ہیں۔ ایک اور ویڈیو میں وہ ناچ رہے ہیں اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ نشے میں بھی ہیں۔ہاتھ میں جام ہے اور پس منظر میں عیسیٰ خیلوی کا گانا لگا ہوا ہے ’’جب آئے گا عمران، سب کی جان، بنے گا نیا پاکستان‘‘۔ اس بات کا فیصلہ کون کریگا کہ جج صرف موسیقی پر ناچتے ہیں یا کسی کے اشارے پر۔ وزیراعظم عمران خان نے البتہ درست فیصلہ کیا ہے کہ عدلیہ اس معاملے کا نوٹس لے حکومت فریق نہیں بنے گی۔ گو کہ مریم نواز کی پریس کانفرنس کے فوراً بعد عمران خان کی ترجمان بیگم اعوان نے فریق بننے کا اعلان کر دیا تھا اور فیصلہ سنا دیا تھا کہ ویڈیو جھوٹی ہے عمران کا کہنا ہے کہ اداروں کو متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ خان صاحب عدالت کی بات کرکے یہ کہنے لگے کہ ن لیگ کے ہتھکنڈوں اور حملوں کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔ احتساب کا عمل جاری رہے گا۔ خان صاحب عدالت کو فیصلہ کرلینے دیں خود ہی فیصلہ نہ دیں کہ یہ حربہ ن لیگ کا ہے یا کسی اور کا، مسئلہ یہ بھی ہے کہ عدالت کے کون کون سے ججز ہیں جن کے بارے میں ویڈیوز نہیں ہیں یہ ویڈیوز ہیں بڑی خطرناک چیز، اگر کوئی قوت اس بنیاد پر حکومت کیخلاف کچھ کرنا چاہ رہی ہوگی تو کر گزرے گی اس بنیاد پر عدلیہ کو دبانا مقصود ہو تو وہ بھی ہوجائے گا، ورنہ کیا کیا ہوچکا کیا کچھ سامنے آچکا۔ جب نہیں کرنا ہو تو کچھ نہیں ہوتا فی الحال تو انتظار فرمائیے۔