عمران خان اور ایک گرد آلود فائل کا آسیب

579

وزیر اعظم عمران خان کا دورہ امریکا ترتیب کے مراحل میں ہے اور گمان غالب ہے امریکا میں ان کو کشمیر کے حوالے سے ڈومور کے تقاضے کے ساتھ ایک پرانی اور گرد آلود فائل تھمائی جائے گی۔ یہ فائل ہے یا آسیب جو اچھے بھلے پاکستانی حکمرانوں کو کھا جاتی رہی ہے۔ یہ وہی فائل ہے جو ماضی میں میاں نوازشریف کو تھمائی گئی تھی اور وہ اس فائل کو تھام کر طاقت کی راہوں پر کشاں کشاں چلتے جانے کہاں سے کہاں نکل گئے تھے۔ پھر ان کے دوست اور مربی انہیں دھونڈتے ہی رہے مگر وہ بہت دور جاچکے تھے۔ نوازشریف طاقت کے مدار سے نکل گئے تو یہی فائل جنرل پرویز مشرف کے آگے سجا دی گئی۔ مشرف بھی اول اول کسمسائے لجائے شرمائے کیوںکہ ان کے خیال میں یہ نوازشریف کا راستہ اور پیروی تھی اور اس وقت وہ نوازشریف سے الرجک تھے مگر پھر ایک روز انہوں نے فائل بغل میں داب لی۔ بس فائل کے ساتھ جڑی نحوستوں نے انہیں تنگ کرنا شروع کیا۔ یہ امریکا کی کشمیر فائل کا ذکر ہورہا ہے جو لازمی طور پر دورہ امریکا کے دوران عمران خان کو بھی پیش کردی جائے گی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں تو بات اس حد تک آگے بڑھ گئی تھی کہ بقول خورشید محمود قصوری پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر پر سمجھوتے میں تین ماہ باقی رہ گئے تھے کہ منظر بدل گیا۔ امریکا کی سرپرستی میں کشمیر پر جس سمجھوتے کی کوشش جاری تھیں و ہ کیمپ ڈیوڈ طرز کا ہے۔ جس میں بنیادی فریق فلسطینی عوام کو نظر انداز کرکے مصر اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ کرانے کی طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر پر معاہدہ کرایا جانا ہے۔ جب پاکستان اس مسئلے سے مصر کی طرح الگ ہوگا تو پھر کہیں آگے جاکر دہلی اور سری نگر سمجھوتا یعنی اوسلو طرز کے معاہدے تک بات پہنچے گی اور اوسلو معاہدے کے ڈھائی عشرے بعد فلسطینی لیڈر بیانات دے رہے تھے کہ ان کے ساتھ اوسلو سمجھوتے کے نام پر ہاتھ ہو گیا ہے۔
پاکستان کا اصولی موقف یہ رہا ہے کہ کشمیری اس مسئلے کے پہلے اور بنیادی فریق ہیں۔ پاکستان اور بھارت اپنے طور پر کشمیریوں کو نظر انداز کرکے اول تو کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے اور اگر ایسا کوئی فیصلہ ہوتا بھی ہے تو کشمیریوں کے مسترد کیے جانے کی صورت میں یہ معاہدہ غیر موثر ہوگا۔ شملہ معاہدہ اسی انجام سے دوچار ہو چکا ہے۔ کشمیر میں ایک مزاحمت اُبھرنے تک شملہ معاہدے کا چرچا رہا مگر جب اصل فریق میدان میں نکل آیا تو اس کے بعد یہ معاہدہ وقت کے دھندلکوں میں گم ہو کر رہ گیا۔ کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم کا ایک چونکا دینے والا مضمون ’’پاکستان اور امریکا چین سرد جنگ‘‘ کے عنوان سے ایک انگریزی اخبار میں شائع ہوا جس میں ان کا کہنا تھا کہ امریکا چوںکہ ایشیا اور جنوبی ایشیا کی سیاست میں اپنا سارا زور بھارت کو چین کے مقابلے میں ایک بالادست طاقت بنانے کے پلڑے میں ڈال چکا ہے اس لیے امریکا نے کشمیریوں کی جائز اور قانونی تحریک کو اسلامی دہشت گردی کے تناظر میں دیکھنا اور جوڑنا شروع کر دیا ہے۔ امریکا اس تحریک اور کشمیریوں کی خواہشات اور عشروں پر محیط ان کی جدوجہد کو ایک محدود کینوس میں دیکھنے کا عادی ہو گیا ہے۔ اس لیے امریکا مسئلہ کشمیر کا جو حل بنا کر پیش کرے گا اس کی بنیاد امریکا کا یہی بدلا ہوا تصور کشمیر اور تصور تحریک ہوگا۔ اس لیے عمران خان کو کشمیر پر ڈومور کی تھمائی جانے والی فائل وہی ہوگی جو نوازشریف اور جنرل مشرف کے ہاتھوں سے ہوتی ہوئی اب اگلے ہاتھوں میں منتقل ہونے کا انتظار کر رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے دورے میں ابھی بہت دن باقی ہیں کہ دفتر خارجہ کے ترجمان نے دوٹوک انداز میں کہا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر پر یک طرفہ سمجھوتا نہیں کرے گا بلکہ کشمیریوں کی مرضی کو مقدم رکھا جائے گا۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کوئی بھی حکومت آئے مسئلہ کشمیر کو سائیڈ لائن نہیں کر سکتی۔ کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا جزو ہے اور کوئی بھی اسے الگ نہیں کر سکتا۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں طاقت کے کئی مراکز کی بات کی جاتی ہے دفترخارجہ کے اشارے اور عندیے ہی پاکستان کی اصل اور حقیقی سوچ اور پالیسی کے عکاس سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ کشمیر پر پرانی فائل عمران خان کو بھی پیش کی جائے مگر اس بات کا امکان موجود ہے کہ عمران خان یا تو شکریے کے ساتھ فائل لوٹادیں گے یا اسے لے کر طاق نسیاں میں سجادیں گے۔
امریکا نے جنوبی ایشیا میں پوری طرح بھارت کی لائن اپنا کر اپنے غیر جانبدار کردار کو شدید زک پہنچائی ہے۔ جب وہ سات عشرے سے زیادہ عرصے پر محیط جدوجہد کو ’’اسلامک ٹیررازم‘‘ جیسی تنگ اور سطحی عینک سے دیکھ گا تو پھر اس کی طرف سے جو حل پیش کیا جائے گا اس میں آزاد اور غیر جانبدار ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوگا۔ کشمیر پر امریکا کی سرپرستی میں ’’کیمپ ڈیوڈ‘‘ طرز کے اس حل سے ہٹ کر ایشیائی حل کی کوششیں بھی آہستہ روی کے ساتھ جاری ہیں۔ ان کوششوں میں چین کا کردار نمایاں ہے۔ پاکستان اور کشمیری عوام اس نئے انداز کے حل کے لیے لچک دکھانے پر آمادہ ہیں کیوںکہ وہ اپنے چین جیسے دوستوں کو کسی مشکل میں ڈالنے کے متحمل نہیں ہو سکتے مگر بھارت اس پر بھی اتراتا دکھائی دے رہا ہے۔ میرواعظ عمر فاروق نے اپنی ماضی کی روایت کے عین مطابق بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کیا کردی کہ بھارت کے حکمران اس میں اپنی ذہنیت کے عین مطابق حالات اور کشمیریوں کے مزاجوں کی تبدیلی، مودی کی سخت گیر پالیسی کے کمالات تلاش کرنے لگے ہیں۔ بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ کو کشمیر میں ایک بدلی ہوئی فضاء نظر آرہی ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ایسی پالیسی اپنائیں گے کہ کشمیری خود بھارت کو گلے لگائیں گے۔ بھارت طاقت کے ذریعے کشمیر کو شہر خموشاں میں بدل رہا ہے۔ بظاہر ایک بدلی ہوئی فضاء محسوس ہو رہی ہے مگر یہ بھارت کے جبر اور کشمیریوں کے اعصاب ٹوٹ جانے کی عکاس نہیں بلکہ مزاحمت کی ہر لہر کے بعد لوگ یہاں سستاتے رہے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر کشمیری عوام پاکستان کی مجبوریوں کی بنا پر امن عمل کو ایک اور موقع دے رہے ہیں۔ جس دن بھارت نے کشمیر کی خصوصی شناخت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تو یہ سار امنظر بدل کر رہ جائے گا۔ بھارت نے کشمیر میں امن کے کئی مواقع انہی خوش فہمیوں اور عارضی منظروں کے باعث ضائع کیے ہیں۔ اب بھی اس بات کا امکان کم ہی دکھائی دے رہا ہے کہ بھارت اس موقع سے فائدہ اُٹھائے گا۔