غزوہ خندق اور ایات نبوت

377

صفی الرحمٰن مبارکپوری

خندق کی کھدائی کے دوران نبوت کی کئی نشانیاں بھی جلوہ فگن ہوئیں۔ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ جابر بن عبداللہؓ نے نبی اکرمؐ میں سخت بھوک کے آثار دیکھے تو بکری کا ایک بچہ ذبح کیا اور ان کی بیوی نے ایک صاع (تقریباً ڈھائی کلو) جو پیسا، پھر رسول اللہؐ سے رازداری کے ساتھ گزارش کی کہ اپنے چند رفقا کے ہمراہ تشریف لائیں۔ لیکن نبیؐ تمام اہل خندق کو جن کی تعداد ایک ہزار تھی، ہمراہ لے کر چل پڑے۔ اور سب لوگوں نے اسی ذرا جتنے کھانے سے شکم سیر ہوکر کھایا۔ پھر بھی گوشت کی ہانڈی اپنی حالت پر برقرار رہی اور بھری کی بھری جوش مارتی رہی اور گوندھا ہوا آٹا اپنی حالت پر برقرار رہا۔ اس سے روٹی پکائی جاتی رہی۔ (صحیح بخاری)
نعمان بن بشیرؓ کی بہن خندق کے پاس دو مٹھی کھجور لے کر آئیں کہ ان کے بھائی اور ماموں کھا لیں گے لیکن رسول اللہؐ کے پاس سے گزریں تو آپؐ نے ان سے وہ کھجوریں لے لیں اور ایک کپڑے کے اوپر بکھیر دیں۔ پھر اہل خندق کو دعوت دی۔ اہل خندق انہیں کھا تے گئے اور وہ بڑھتی گئیں۔ یہاں تک کہ سارے اہل خندق کھا کھا کر چلے گئے اور کھجوریں تھیں کہ کپڑے کے کناروں سے باہر گر رہی تھیں۔ (ابن ہشام)
انہی ایام میں ان دو واقعات سے کہیں بڑھ کر ایک اور واقعہ پیش آیا جسے امام بخاری نے جابرؓ سے روایت کیا ہے۔ جابرؓ کا بیان ہے کہ ہم لوگ خندق کھود رہے تھے کہ ایک چٹان نما ٹکڑا آڑے آگیا۔ لوگ نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یہ چٹان نما ٹکڑا خندق میں حائل ہوگیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’میں اتر رہا ہوں‘‘۔ اس کے بعد آپؐ اٹھے، آپ کے شکم پر پتھر بندھا ہوا تھا… ہم نے تین روز سے کچھ چکھا نہ تھا… پھر نبیؐ نے کدال لے کر مارا تو وہ چٹان نما ٹکڑا بھر بھرے تودے میں تبدیل ہوگیا۔ (صحیح بخاری)
براءؓ کا بیان ہے کہ جنگ خندق کے موقع پر کھدائی کے دوران ایک سخت چٹان آپڑی جس سے کدال اچٹ جاتی تھی کچھ ٹوٹتا ہی نہ تھا۔ ہم نے رسول اللہ سے اس کا شکوہ کیا۔ آپ تشریف لائے، کدال لی اور بسم اللہ کہہ کر ایک ضرب لگائی (تو ایک ٹکڑا ٹوٹ گیا) اور فرمایا: ’’ اللہ اکبر! مجھے ملک شام کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ واللہ! میں اس وقت وہاں کے سرخ محلوں کے دیکھ رہا ہوں‘‘۔ پھر دوسری لگائی تو ایک دوسرا ٹکرا کٹ گیا، اور فرمایا: ’’ اللہ اکبر! مجھے فارس دیا گیا ہے۔ واللہ! میں اس وقت مدائن کا سفید محل دیکھ رہا ہوں‘‘۔ پھر تیسری ضرب لگائی اور فرمایا: ’’بسم اللہ‘‘۔ پھر باقی ماندہ چٹان بھی کٹ گئی۔ پھر فرمایا: ’’اللہ اکبر! مجھے یمن کی کنجیاں دی گئیں ہیں۔ واللہ! میں اس وقت اپنی اس جگہ سے صنعاء کے پھاٹک دیکھ رہا ہوں‘‘۔ (مسند احمد)