چین میں کورونا کا ایک بھی کیس  سامنے نہیں آیا ۔ یہ امید کی کرن ہے

830

جب سے کورونا وائرس کا روناشروع ہوا ہے ، چین نے پچھلے ہفتے جمعرات کے دن رپورٹ کیا کہ چین میں کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا ہے ۔ اس مہنگی ترین جنگ میں جو چین وبا کے ساتھ لڑ رہا تھا ، یہ ایک بڑی کامیابی ہے ۔ دوسری طرف چین نے اب تک جو نئے کیسز کورونا وائرس کے رپورٹ کیے ہیں وہ لوگ ہیں جو دوسرے ملکوں سے سفر کر کے چین میں آئے ۔اس کے علاوہ روزانہ کی بنیاد پر چین کورونا وائرس کے مریضوں کی صحت یابی کی خبر سنا رہا ہے ۔ ان تمام خبروں نے حکومت نے عوام کو ایک خوشخبری سنائی ہے کہ وہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ جیت چکے ہیں ۔ لیکن ابھی چین کی حکومت کو ایک اور جنگ لڑنی ہے اور وہ معاشی بحران کے لاف ہے ۔ان تین مہینوں میں چین کی اکانومی زمین پر آ گری ہے جب سے سفر پر پابندی لگائی گئی ہے اور شہروں میں لاک ڈائون کیا گیا ۔ تمام کاروبار بند ہو گئے ۔ سڑکیں ، شاہراہیں بلاک کر دی گئیں ، اندرون ملک اور بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کر دی گئی اور شہری گھروں میں قید کر دیے گئے ۔ اس صورتحال سے چین معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے ۔
دوسری طرف ایکسپرٹ کا کہنا ہے کہ چ ین ابھی خطرے سے مکمل طور پر باہر نہیں آیا ہے ۔ چین کو کم از کم ابھی چودہ دن تک یہ دیکھنا ہے کہ کورونا وائرس کا کوئی نیا کیس سامنے آتا ہے یا نہیں ۔ یہ بھی دیکھنا باقی ہے کہ جب لوگ معمول کی طرح آپس میں ملنا جلنا شروع کریں گے اور زندگی بحال ہو گی تو کیا یہ وائرس پلٹ کر دوبارہ حملہ آور ہوگا یا نہیں ۔ ہانگ کانگ یونیورسٹی آف پبلک ہیلتھ کے پروفیسر’’ بین کائولنگ‘‘ جو کہ ہائیواسٹیک اور ایپی ڈیمولوجی ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ ہیں کا کہنا ہے کہ
’’ چین نے جو بھی اقدامات کیے ہیں ، ان سے صاف ظاہر ہے کہ یہ اقدامات کام کر گئے ہیں اور وائرس کی پہلی لہر چین برداشت کر گیا ہے ۔مگر سوال یہ ہے کہ اگر اس وبا کی دوسری لہر اٹھی تو چین کے اقدامات لمبے عرصے تک وبا کے آگے ٹک نہیں سکیں گے ۔ ‘‘
چین نے وبا کا پھیلائو روکنے کے لیے اسکولز ، آفیسز بند کر دیے تھے اور سفر پر پابندی لگا کر لوگوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایات کی تھیں ۔ جنوری سے اب تک تقریباً پچاس ملین لوگ چین کے صوبے ہوبی اور اس کے دار الحکومت ووہان ہاں سے وبا پھیلی تھی سخت لاک ڈائو میں رہ رہے تھے ۔ مگر پچھلے ہفتے جب سے گورنمنٹ نے خوشخبری سنائی ہے ، پورے ملک میں ایمر جنسی آہستہ آہستہ ہٹانا شروع کر دی ہے اور ملک کے بیشتر حصوں میں زندگ واپس آ رہی ہے ۔ بیجنگ اور شنگھائی جیسے شہروں میں ہوٹل اور دکانیں کھل گئی ہیں ۔ مگر اس کے ساتھ چہرے پر ماسک لگانا ۔ فاصلہ رکھ کر ملنا ، ہاتھ زیادہ سے زیادہ دھونا ، عمارتوں میں آتے جاتے بخار چیک کرنا نارمل روٹے کا حصہ سمجھا جانے لگا ہے۔ اسکولز ابھی بند ہیں مگر پڑھائی کے لیے آن لائن کلاسس کا سہارا لیا جا رہا ہے ۔ چین کے گائوں دیہات کے علاقوں میں بھی پابندیاں ختم کر دی گئی ہیں اور راستوں سے بیریئر ہٹا دیے گئے ہیں ۔
اس کے علاوہ ہوبی کے صوبے میں جب سے مسٹر شی نے وہاں کا دورہ کیا ہے اور پابندیاں اٹھانے کا حکم دیا ہے ، بزنس اور فیکٹریز دوبارہ کھل رہے ہیں جبکہ ووہان میں جتنے بھی قرنطینہ سینٹرز قائم کیے گئے تھے تمام بند کر دیے گئے ہیں ۔ زنگ شان کے گائوں میں جو کہ ہوبی صوبے میں واقع ہے ایک دن زور دار اعلان کیا گیا کہ کرفیو ختم کر دیا گیا ہے اور لوگ روزانہ کا کام دھندا شروع کر دیں ۔ اس اعلان کے بعد لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی لوگوں نے جشن منایا اور پٹاخے پھوڑ کر خوشی منائی ۔
’’ اسٹیفن کرک‘‘ جو کہ ایک امریکن ہیں اور اپنی بیوی کے خاندان سے ملنے ہوبی آئے تھے جب کرفیو نافذ ہوا اور سب کچھ بند کر دیا گیا، ان کا کہنا ہے کہ
’’ ایسا لگتا ہے کہ جنگ ختم ہو گئی ہے ۔ ہم ابھی بھی ہوبی شہر سے باہر سفر نہیں کر سکتے لیکن کم از کم لاک ڈائون ختم کر دیا گیا ہے ‘‘
اس سب کے باوجود’’ووہان‘‘ شہر ابھی تک سکتے کی حالت میں ہے ،کچھ لوگ لاک ڈائون کے حالات کو دوزخ کے حالات سے تشبیہہ دیتے ہیں ۔ جب ان کے کھانے پینے کی شیاء ، دوائیں ختم ہونے لگیں ، قرضے چڑھنے لگے اور ان کو سمجھ نہیں آیا کہ شہر کے حالات کب تک بہتر ہوں گے تو لوگوں میں غصہ بڑھنے لگا جبکہ کچھ لوگوں کے لیے یہ صرف غم کا وقت تھا جب ان کے پیارے ان کو چھوڑ کرہمیشہ کے لیے چلے گئے ۔ شہر میں تقریباً ہر کوئی ایسا موجود ہے جس کا کوئی پیارا ، کوئی دوست ، رشتہ دار موت کے منہ میں چلا گیا ۔ مسٹر’’لِن‘‘ جو کہ کیمرہ مین ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’’ہماریلیے یہ ایک جنگ تھی ، ہر کسی نے اتنا کچھ برداشت کیا ہے کہ ابھی تک سکتے کی حالت میں ہیں ‘‘
ووہان کے کچھ شہریوں نے امید کا دامن پکڑ لیا ہے مگر کچھ ایسے بھی ہیں جن کے دلوں میں اب تک یہ غم باقی ہے کہ شہر کے گیارہ ملین لوگوں کو بے یارو مدد گار چھوڑ دا گیا تاکہ باقی لوگوں کو بچایا جا سکے۔