تنازعات کا حل تو نکالنا ہی ہوگا

چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار فرماتے ہیں “کہا جاتا ہے عدالت عظمیٰ متنازع ہوتی جارہی ہے۔ عدالت عظمیٰ اگر متنازع ہوتی جارہی ہے تو پھر یہاں آتے ہی کیوں ہیں؟”۔ یہ بات چیف صاحب نے بلال اظہر کیانی کو الیکشن کیلئے نااہل قرار دیئے جانے کی اپیل پر سماعت کے دوران تبصرہ کرتے ہوئے کہی جن کو بر بنائے دہری شہریت اپلیٹ ٹربیونل نے الیکشن لڑنے سے روک دیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے بلال اظہر کیانی کی نااہلی کا فیصلہ معطل کر دیا اور فرمان جاری کیا کہ اگر بلال اظہر کامیاب ہوتے ہیں تو ان کی کامیابی کا نوٹی فکیشن عدالت عظمیٰ کے حتمی فیصلہ سے مشروط ہو گا۔

چیف صاحب بات تو بڑے پتے کی کرتے ہیں کہ جب عدالتی فیصلے متنازع ہیں تو پھر لوگ یہاں (عدالت میں) کیوں آتے ہیں۔ یہاں اس سوال کے جواب میں میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ پھر آخر کار لوگ جائیں تو کہا جائیں؟۔ کاش اس کا جواب بھی اگر کسی تبصرے میں عوام کو مل جائے تو ان کی بیشمار ذہنی الجھنیں دور ہو سکتی ہیں۔

کون نہیں جانتا کہ حالت امن، علاوہ کراچی شہر، بلوچستان کے تمام شہر اور کے پی کے کے کئی شہروں کے، میں پولیس ہی امن و امان برقرار رکھنے، لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبروکی حفاظت کی ذمہ دار ہوتی ہے لیکن سارا پاکستان ہی کیا، پوری دنیا کو معلوم ہے کہ پاکستان کا یہ ادارہ کتنا متنازع ہے اور پاکستان کا کوئی ایک شہری بھی ایسا نہیں جو اس ادارے (پولیس) کے متعلق اچھی رائے رکھتا ہو۔ عوام تو عوام، خود عدالت عالیہ کی نگاہوں میں بھی خود یہی ادارہ جرائم کی سرپرستی میں ملوث ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت سابقہ چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری کراچی رجسٹری کیس میں یہ لکھ چکے ہیں کہ سندھ (کراچی) کے جرائم میں نہ صرف سیاسی پارٹیاں شریک ہیں بلکہ یہاں کی پولیس میں 40 فیصد سے زیادہ اہل کار کراچی کی بد امنی میں برابر کے شریک ہیں۔ پولیس کی نااہلی یا متنازعہ ہونے کا یہ بھی ایک منھ بولتا ثبوت ہے کہ مکمل امن بحال ہونے (بقول رینجرز) کے باوجود تاحال شہر کو پولیس کے حوالے کئے جانے کا کوئی امکان دور دور تک نظر نہیں آتا  بلکہ خود ریجرز کے ترجمان کا یہ کہنا ہے کہ پولیس کیونکہ اس معیار کی نہیں جو ایک شہر کو سنبھال سکے اس لئے شہر کو پولیس (نالائقوں) کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ اب پولیس کی اتنی نااہلی، ناکارہ پن، کرپٹ اور براہ راست جرائم میں ملوث ہونے کے ثبوت اور عدالتی فیصلوں کے باوجود وہ ہر عام و خاص سے یہ کہے کہ جب ہم ایسے ہی ہیں تو شہر کے لوگ اپنی شکایتیں اور مسائل لے کر تھانے کیوں آتے ہیں تو کیسا لگے گا؟۔

پولیس کے اس سوال پر لوگ یہی سوال تو اٹھائیں گے کہ “جائیں تو جائیں کہاں”۔

  بات چند اداروں تک ہی محدود نہیں، ہر وہ ادارہ جو براہ راست وفاقی یا صوبائی حکومت کے ماتحت ہے یا نیم سرکاری ہے، سب کا حال ابتر ہے اور ملک کے کسی بھی شہری کو جب ان سے واسطہ پڑتا ہے وہ نفسیاتی مریض بن کر رہ جاتا ہے۔

میں اگر ایماندارانہ تجزیہ کروں تو ان سب میں سب سے ابتر اور برا حال عدالت اور عدالتی نظام کا ہے تو شاید کہیں سے کہیں تک ناجائز یا لغو نہیں ہوگا۔ کیا عدالت میں موجود وکلا مقدمہ لڑنے والے سے وہی فیس وصول کرتے ہیں جو عدالتی قوائد و ضوابط کے مطابق ہوتی ہے؟، کیا سستے وکیل کی وہی قابلیت ہوتی ہے جو مہنگے وکیل کی ہوتی ہے جبکہ ڈگریاں دونوں کے پاس مستند اداروں کی ہی ہوتی ہیں؟۔ کیا چھوٹی عدالتوں کے منصفین اعلیٰ وہی قابلیت رکھتے ہیں جو قابلیت درجہ بدرجہ بڑی عدالتوں کے منصفین اعلیٰ رکھتے ہیں۔ کیا دونوں کی قانون کی کتابیں جدا جدا ہوتی ہیں؟۔ کیا ہر کچہری کا ماحول ایسا ہوتا ہے کہ وہاں آکر ہر مظلوم کو یہ احساس ہوجاتا ہے کہ میں انصاف کی ترازو میں بیٹھ گیا ہوں؟۔ کیا معمولی معمولی کیسوں کا فیصلہ فوری ہوجاتا ہے؟۔ کیا یہاں آکر ہر مظلوم کو ایسے پرائیویٹ ہسپتال کا احساس ہوتا ہے جہاں پہنچ کر مریض کا آدھا مرض دور ہوجاتا ہے یا گورنمنٹ ہسپتالوں جیسا تصور ابھرتا ہے جہاں پہنچ کر مریض نہ بھی مرنے والا ہو تو دم توڑدیتا ہے؟۔ کیا ہر عدالت کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے اور اس فیصلے کو جب اس سے بڑی عدالت میں لیکر جایاجاتا ہے تو کبھی تبدیل نہیں ہوتا؟۔ تبدیل ہوجانے کی صورت میں جو مظلوم ظالم اور جو ظالم مظلوم بن جاتا ہے اس پر ماتحت عدالتوں کے ججوں سے باز پرس کی جاتی ہے کہ اتنی بڑی قانونی غلطی اس نے کیسے کی؟۔ کیا وکلا اور ججوں کا کسی بھی سطح پر کوئی احتسابی نظام “نظام عدل” میں موجود نہیں؟۔ وہ سارے مظلومین جو مقدمات لڑنے کے لئے مالی گنجائش ہی نہیں رکھتے کیا وہ انصاف سے محروم نہیں رہ جاتے؟۔ کیا عدالت 27۔27 زخم لگانے والے کی رہائی کے پروانے جاری نہیں کیا کرتی اور اذیت سہنے والی خاتون سے یہ کہتی نظر نہیں آتی کہ دنیا میں نہ جانے کیا کیا ہوجاتا ہے۔ کیا ماڈل ٹاؤن واقعے کے شہدا کو اںصاف مل چکا ہے؟۔ کیا 27 دسمبر 2007 کے ان ذمہ داروں میں سے جنھوں نے کراچی تا خیبر پھونک کر رکھ دیا اور چار دن تک قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم رکھا، بازار نذر آتش کئے، بینک لوٹے، لوگوں کی ذاتی و سرکاری گاڑیاں جلائیں، اہم تنصیبات پر حملے کئے اور ان کو راکھ کا ڈھیر بنادیا، خوتین اغوا کی گئیں اور ملک کے ساتھ وہ سلوک کیا جو دشمن ملک کی فاتح افواج بھی نہیں کیا کرتیں، ان کے خلاف کوئی “ازخود نوٹس” عدالت نے لیا؟۔ کیا اس ایک تنہا اور ذمہ دار پارٹی کو کالعدم قرار دلوایا گیا؟۔ یہ اور ایسے ہزارہا سوالات ہیں جس کا جواب پاکستان کے عوام ہی نہیں، دنیا کا ہر سنجیدہ طبقہ مانگ رہا ہے لیکن جس طرح پاکستان کے کسی ادارے کے پاس اپنی بیکاروناکارہ کارکردی کا دفع کرنے اور یہ کہنے کہ علاوہ کہ اگر ہم ناکارہ ہیں تو ہم بیکاروں کے پاس لوگ آتے ہی کیوں، کوئی اور جواب نہیں اسی طرح آپ کا یہ فرمانا کہ اگر عدالتیں متنازع ہیں تو لوگ ہمارے پاس کیوں آتے ہیں، بجا ہی نہیں بلکہ اس سے بہتر اور کوئی جواب ہو ہی نہیں سکتا۔

انسان کا لفظ “نسیان” سے ہی نکلا ہے جس کے معنیٰ بھول اور خطا کے ہیں۔ لہٰذا جس جس کام کو انسان انجام دے رہے ہیں ان میں ہر قسم کی خطا کا امکان بدرجہ اتم موجود رہے گا۔ لغزشوں اور کوتاہیوں ہونگی تو ان کی نشان دہی بھی کی جائے گی۔ اس نشان دہی پر برہمی مناسب نہیں۔ عدالتوں ہی پر کیا موقوف، میں عرض کرچکا ہوں کہ پاکستان کے تمام ادارے کوئی فرشتے نہیں چلارہے، سب اداروں کو انسان ہی چلارہے ہیں اور جب انسان ہی ان کو چلارہے ہوں تو یہ ہوہی نہیں سکتا کہ ان سے کوئی بھول نہیں ہو، کوئی لغزش نہیں ہو اور خطا نہیں ہو۔ کسی بھی انسان، محکمے یا دارے سے اگر کوئی کوتاہی ہوہی جائے تو کوئی نہ کوئی تو ہوگا جو اس کی نشاندہی کریگا۔ غلطی یا کوتاہی اگر اصلاح طلب ہو تو اس کو دور کرنا بھی تو کسی اور کا کام نہیں ہوتا۔ اگر روک ٹوک کے بعد اصلاح احوال ہوتی رہے تو رنگ اور بھی نکھر یایا کرتا ہے اور کارکردگی میں چار چاند لگنا شروع ہوجاتے ہیں لیکن اگر ان کی اصلاح کی بجائے اس پر اڑ پیدا ہوجائے تو وہی نقطہ نقطہ زوال بن جایا کرتا ہے۔

آپ آج کل ہر شہر کا، ہسپتالوں کا، تعلیمی اداروں اور دیگر ان جگہوں کا دورہ کر رہے ہیں جن سے عام افراد یعنی عوام کے دکھ درد کا تعلق ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ درست نہیں ہوئے تو عوام کو اذیت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان دوروں میں آپ نے ان تمام خرابیوں کو درست کرنے کی ہدایات جاری کیں جو عوام کی اذیت کا سبب بنی ہوئی ہیں تاکہ عام لوگوں کو سکون مل سکے اور ان کی تکلیف کا ازالہ ہو سکے۔ اب اگر وہ تمام ادارے، تعلیم گاہیں، ہسپتال وغیرہ جواباً یہ کہنے لگیں کہ اگر لوگوں کو ہم سے شکایت یا تکلیف ہے تو لوگ ہمارے پاس آتے ہی کیوں ہیں تو یہ کتنے کرب کی بات ہوگی۔ نشاندہی کرنے کا مطلب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا کہ اس کی اصلاح کی جائے تاکہ کارکردگی میں مزید بہتری آئے اور رجوع کرنے والوں کو سکون، اطمنان اور راحت نصیب ہو سکے۔

عدالت کا نظام جتنا سہل، مبنی بر انصاف اور سستا بلکہ مفت ہوگا جرائم کی شرح میں اتنی ہی کمی آئے گی۔ لوگوں کو اگر اس بات کا اعتماد ہوجائے کہ جب بھی وہ انصاف کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے ان کو انصاف بنا اجرت اور فوری ملے گا تو وہ اپنے فیصلے کبھی از خود نہی کریں گے، عدالتیں میدان جنگ نہیں بنیں گی، ایک مجرم کے عوض بارہ بارہ گلے نہیں کٹیں گے، خواتین در بدر کی ٹھوکیں نہیں کھایا کریں گی اور ظالموں کو یہ جرات کبھی نہ ہو سکے گی کہ وہ کسی کے ساتھ زیادتی کر سکیں کیوں کہ ان کو اپنا انجام بد صاف صاف نظر آرہا ہوگا۔ لیکن اگر مال و زر بنیاد بن جائے انصاف کے حصول کا تو پھر جو صورت حال آپ کے سامنے ہے ان میں بدی کا اضافہ تو ہو سکتا ہے خیر کی کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں