سانحہ بلدیہ کو سیاست کی نذر کردیا گیا ہے، سعیدہ خاتون

650

کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری) سانحہ بلدیہ کے اہم ملزم فیکٹری مالک کو معصوم قرار دے کے انصاف کا تمسخر اڑایا گیا ہے۔ سانحہ بلدیہ کو سیاست کی نذر کردیا گیا ہے۔ کارگاہوں میں ناقص انتظامات کی بنا پر مزدورں پر موت کے سائے منڈلا رہے ہے۔

ان خیالات کا اظہار علی انٹرپرائیز فیکٹری فائر افیکٹیز ایسوسی ایشن کی چیئرپرسن سعیدہ خاتون نے ہفتے کو کراچی پریس کلب میں پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کیا،اس موقعے پر نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن پاکستان کے جنرل سیکرٹری ناصر منصور، پائیلر کے ڈائریکٹرکرامت علی، ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کی جنرل سیکرٹری زہر ہ اکبر خان، ہوم رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اسد اقبال بٹ سمیت سول سوسائٹی کے دیگر افراد بھی موجود تھے۔

سعیدہ خاتون نے کہا کہ سانحہ بلدیہ کے آٹھ سال گزرنے کے باوجود مزدور شہداء کے لواحقین انصاف کے لیے سرگرداں ہیں۔ اس الم ناک سانحہ کی تحقیقات کے لیے مختلف جے آئی ٹیز بنا کر سارے تحقیقاتی عمل کو مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مقدمے میں شہداء کے ورثا کو فریق ہی تسلیم نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان سے پوچھا گیا جو کہ انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہداء کے ورثا اور سانحہ کے متاثرین کے ساتھ کام کرنے والی مزدور تنظیموں کا متفقہ موقف ہے کہ اس سانحہ میں آگ لگی یا لگائی گئی سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ فیکٹری میں آگ سے بچے کے انتظامات انتہائی ناقص یا نہ ہونے کے برابر تھے۔ باہر نکلنے کے تمام راستے مستقل بند تھے، فیکٹری کی کھڑکیوں کو لوہے کی سلاخوں سے بند کیا گیا تھا، آگ بجھانے کے آلات ناکارہ ہو چکے تھے، ورکرز کو ایمرجنسی صورت حال سے نمٹنے کی کوئی تربیت نہیں دی گئی تھی، فیکٹری غیرقانونی طور پر کام کر رہی تھی، اس کی بلڈنگ کا نقشہ بھی متعلقہ ادرارے سے منظور شدہ نہ تھا۔ یہ وہ بنیادی وجوہات تھیں جو بڑی تعداد میں مزدوروں کی ہلاکت کا باعث بنی ہے۔

انہوں نے کہا کہ فیکٹری کو آگ لگانے کے گھناؤنے جرم میں اگر کوئی ملوث ہے تو اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ لیکن فیکٹری مالکان کو معصوم قرار دینا انصاف کے تقاضوں کا قتل ہے کیوں کہ ان کی مجرمانہ غفلت اور بروقت حفاظتی اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے واقعہ 260 افراد کی جان لینے کا باعث بنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگرفیکٹری مالکان کو کو کسی قسم کی دھمکیوں اور بلیک میلنگ کا سامنا تھا تو انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بروقت اطلاع کرنی اور مزدوروں کے تحفظ کے انتظامات کرنے چاہئے تھے۔ لیکن وہ ایسا کرنے ناکام رہے۔ علی انٹر پرائیز کے سانحہ سے سبق سیکھتے ہوئے گارگاہوں کے حالات کار بہتر بنانے کی بجائے بھتہ کو بہانہ بنا کر فیکٹری مالکان نے ذمہ داریوں سے فرار کا راستہ اختیار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سانحہ کے بعد مسلسل صنعتی حادثات ہو رہے اور مزدور طبقے کی صنعتی حادثات میں بڑھتی ہوئی اموات پر حکومت مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی برانڈز اور کمپنیاں لیبر قوانین اور عالمی لیبر معیارات کی پرواہ کیے بغیر منافع کمانے میں مصروف ہیں۔ آئی ایل او کے کنوینشنز، یورپین یونین سے کیا گیا جی ایس پی پلس معاہدہ اور مزدور تنظیموں سے کیے گئے گلوبل فریم ورک اگریمنٹس بھی مزدوروں کو بہتر حالات کار اور اوقات کار کی ضمانت دینے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔

برانڈز، ان کے مقامی سپلایئرز اور پرائیویٹ سوشل آڈٹ کمپنیوں نے مزدوروں کے خلاف مقدس اتحاد کر رکھا ہے جسے انوسٹمنٹ کے نام پر حکومتی پشت پناہی بھی حاصل یے۔ یہ صورت حال برانڈز، مقامی صنعت کاروں اور آڈیٹ کمپنیوں کو مزدوروں کے قتل عام کا سرٹیفکیٹ فراہم کر رہی ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ متاثرین سے کیے گئے تمام مطالبات تسلیم کیے جائیں، حکومت سندھ وعدہ کے مطابق رہائشی پلاٹ اور ملازمت فراہم کرے، ای او بی آئی والدین کی پینشن بحال کرے، متاثرین کو گریجوئٹی اور گروپ انشورنس کی ادائیگی کے احکامات جاری کیے جائیں، تمام شہروں خصوصا کراچی میں فرانزیک لیبارٹری فی الفور قائم کی جائے،برانڈز کو ملکی و بین الاقوامی قوانین کا پابند بنایا جائے۔

پرائیوٹ سوشل آڈیٹنگ کے نظام کو ختم کر کے موثر لیبر انسپکشن نظام متعارف کرایا جایے۔فیکٹریوں، کارگاہوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے ہیلتھ اور سیفٹی کے قوانین کے اطلاق کو یقینی بنایا جائے اور لیبر قوانین پر عمل درآمد کیا جائے۔