عالمی یومِ حجاب

895

مغرب مسلم معاشرے میں بڑھتی ہوئی دینی بیداری اور شعور کو دیکھ کر خوف زدہ ہےاب سے چند سال پہلے تک حجاب چند گھروں یاعلاقوں تک ہی محدود تھا لیکن پھر اس پر لگائی جانے والی بڑی طاقتوں کی پابندیو ں نے اسے وہ مقام دلوا دیا کہ اب بڑے بڑے فیشن ایبل کالجز کی لڑکیاں بھی اسے بطور فیشن اور مذہب کے احکامات کے طور پر اپنائے ہوئے ہیں۔

ہر سال 4ستمبر کا دن پوری دنیا میں عالمی یوم حجاب کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن فرانس میں حجاب پر پابندی کے بعد لندن میں ایک کانفرنس کے موقع پر عالم اسلام کے ممتاز رہنماﺅں نے طے کیا تھا، 2004ءسے پوری دنیا میں اس پر عمل درآمد ہورہا ہے۔

اس دن عورت اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ حجاب معیار عزت و عظمت ہےآج کے دور میں حجاب آزای کی توانا علامت بن کر سامنے آرہا ہے زندگی کے ہر شعبے میں با حجاب خواتین کی بھرپور شمولیت اس بات کا اعلان ہے کہ حجاب عورت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ ممدومعاون ہے ۔

حجاب مسلمان عورت کا فخر بھی ہے اور حق بھی۔یہ ایک تکریم ہے جو ہمارے رب نے ہمیں دی ہےحجاب ہمارا وقار بھی ہے اور ہمارا اسلحہ بھی جو ہمیں کردار کی مضبوطی عطا کرتا ہے اور ہمیں حق کی راہ میں جدوجہد کیلئے اپنے رب کے حکم کی پابندی کا اعزاز بخشتا ہے۔علامہ اقبالؒ ایک فارسی کی رباعی میں کہتے ہیں کہ” اللہ تعالی خالق ہے اور وہ حجابوں میں ہے اس نے اس کائنات میں انسانوں کو پیدا کرنے کی صفت تخلیق صرف عورت کو عطا کی ہے اور عورت کو اپنے اس اعزاز پر بے تحاشا فخر کرنا چاہیے۔

قرآن کریم ہرمسلمان کے لیے قانون کا درجہ رکھتا ہے ۔ سب سے پہلے سورۃ احزاب میں حجاب کے بارے میں آیت نازل ہوئی۔ ’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نبیؐ کے گھروں میں بلااجازت نہ چلے آیا کرو۔ نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو۔ ہاں اگر تمہیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ مگر جب کھانا کھالو تو منتشر ہوجائو۔ باتیں کرنے میں نہ لگے رہو۔ تمہاری یہ حرکتیں نبی ؐ کو تکلیف دیتی ہیں مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے اور اللہ حق بات کہنے میں نہیں شرماتا۔ نبی ؐ کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگنا ہوتو پردے کے پیچھے مانگا کرو۔ یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے ۔ تمہارے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اللہ کے رسولؐ کو تکلیف دو۔

اس کے بعد حجاب کا حکم قرآن کریم کی سورۃ نور کی آیت نمبر 31میں نازل ہوا ۔ ’’اور اے نبیﷺ مومن عورتوں سے کہہ دیں کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بنائو سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے کہ جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی چادروں کے آنچل ڈالے رکھیں۔ ‘‘ ان آیات کے بعد کس مسلمان میں یہ جرات اور طاقت ہو سکتی ہے کہ وہ حجاب کو صرف کلچر، روایت یا معاشرتی اور سماجی رویہ قراردے کر مسترد کر دے ۔ یہ واضح قرآنی والٰہی حکم ہے جسے مسلمان عورتیں بڑے افتخار کے ساتھ اپنائے ہوئے ہیں۔