علامہ اقبال کی سیاسی جدوجہد میں خطبہ الٰہ آباد کا تسلسل

2290

ڈاکٹر طاہر حمید تنولی
خطبہ الٰہ آباد کو ہماری جدوجہد آزادی میں میگنا کارٹا کی حیثیت حاصل ہے۔ علامہ اقبال نے ا س خطبہ میں سیاسی، معاشی، تہذیبی اور جغرافیائی استدلال کیساتھ مسلمانان برصغیر کے لیے ایک الگ وطن کی تجویز پیش کی۔ اس خطبے کے بعد بھی علامہ کی سیاسی فکر اور جدوجہد میں اس موقف کا تسلسل رہا جو انہوں نے دسمبر 1930ء کے خطبہ الٰہ آباد میں پیش کیا تھا۔ علامہ نے یہ موقف مختلف مواقع پر مختلف انداز سے پیش کیا مگر اس کا مقصود یہی تھا کہ مسلمانان ہند کو انگریز او رہندو کی غلامی سے مکمل آزادی حاصل ہو اور وہ بتدریج اپنے آزاد وطن کے مالک بنیں جہاں وہ اپنے نظریہ حیات کے مطابق نظام زندگی طے کر سکیں۔
جن حالات میں علامہ نے خطبہ الٰہ آباد دیا، وہ حالات اس تجویز کی اہمیت کو سمجھنے اور بعد ازاں ا س کے تسلسل کی مختلف صورتوں کی تفہیم میں مدد کرتے ہیں۔ نہرو رپورٹ میں جداگانہ طریق انتخاب کی منسوخی اور وحدانی طرز حکومت پر زور بڑھ رہا تھا۔ اس اثر کو کم کرنے کے لیے آل انڈیا پارٹیز مسلم کانفرنس دہلی کی قرار داد کو ڈھال بنایا گیا تھا کہ مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ ہو سکے۔ چونکہ 1930ء میں کانگرس حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کر چکی تھی، کانگرس کے رویے اور مسلمانوں کیساتھ طرز عمل سے مسلم زعما اس سے مایوس ہو چکے تھے۔ اندریں حالات قرارداد دہلی کی رو سے مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں میں مسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سے نمائندگی، سرحد او ربلوچستان میں اصلاحات کا نفاذ اور سندھ کی بمبئی پریزیڈنسی سے علیحدگی جیسے مسلمانوں کے مطالبات انگریزوں سے منوا لینا مسلمانوں کے عین مفاد میں تھا۔ کیونکہ انہی مطالبات کے تسلیم کیے جانے پر مسلمانوں کے الگ تشخص کا تحفظ ہو سکتا تھا۔ دہلی کانفرنس کی قرار داد توثیق کے لیے کانگریس کو بھیجی گئی۔ کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے اس کا جائزہ لیا اور اسے کانگریس کونسل کے اجلاس میں پیش کر دیا جس کی صدارت سری نواس آینگر کر رہے تھے۔ قرارداد پر غور و بحث کے بعد اس کی تجاویز منظور کر لی گئیں۔ مگر بعد ازاں نہرو رپورٹ اور پھر 22 دسمبر 1928ء و کلکتہ کے کل جماعتی قومی کنونشن میں ان تجاویز اور قائد اعظم کی دیگر ترامیم کو یکسر مسترد کر دیا گیا اور قائد اعظم کو یہ کہنا پڑا کہ ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ مزید برآں دوسری گو ل میز کانفرنس میں ہندو مسلم اتحاد کی کوششوں کے ناکام ہو جانے پر مسلمانوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا کہ وہ اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے کوئی راہ اختیار کریں بلکہ جب گول میز کانفرنسوں کی ناکامی پر اگست 1932ء میں حکومت برطانیہ کی جانب سے کیمیونل ایوارڈ کا اعلان ہوا اور مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے نشستیں ملیں اور پست اقوام کو بھی مراعات دی گئیں تو گاندھی نے وزیر اعظم کو خط لکھا کہ اگر ان کی خواہش کے مطابق ایوارڈ میں ترامیم نہ کی گئیں تو وہ 28ستمبر سے مرن برت شروع کر دیں گے۔
مسلمانوں کے الگ ریاست کے مطالبے پر ہندوں نے پان اسلام ازم کا شوشہ کھڑا کر کے انگریزوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ مسلمان اپنی ا س تحریک کے ذریعے انگریزوں کو برصغیر سے بے دخل کر کے اپنی سلطنت کا احیا چاہتے ہیں اور انگریز بھی یہی سمجھتے تھے کیونکہ انہوں نے حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کو جب انگریزوں نے غد رکا نام دیا تو ا س کاذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرایا تھا نتیجتاً ہندو انگریزوں کے غضب سے بالکل محفوظ رہے تھے۔
ا س پورے سیاسی ماحول پر مسلمانوں کے بارے میں ا س طرح کے تاثرات اور پان اسلام ازم کا اثر غالب تھا۔ جب ترکی میں انگریز خلافت کو جڑ سے اکھاڑ رہے تھے تو وہ ان کا یہی خوف تھا کہ مسلمان متحد ہو کر عالمی برادری کی صورت نہ اختیار کر لیں۔ وہ مسلمانوں کا ایک مرکز پر جمع ہونا اپنے لیے موت تصور کرتے تھے۔ یہی وہ ماحول تھا کہ جب علامہ دوسری گو ل میز کانفرنس میں شرکت کے لیے جا رہے تھے تو بمبئی کرانیکل کے نامہ نگار کا علامہ سے سوال پان اسلام ازم کے حوالے سے ہی تھا۔
دوسری گول میز کانفرنس کے دوران ایڈروڈ تھامسن نے ٹائمز میں خط شائع کروایا۔ اپنے خط میں تھامسن نے علامہ اقبال کی تجویز کو پان اسلامی سازش قرار دیا۔ ایڈروڈ تھامسن کا خط 3 اکتوبر 1931ء و شائع ہوا جس کا عنوان ہی Pan-Islamic Plotting تھا۔ تھامسن کی بدنیتی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ بعد ازاں اس نے علامہ سے یہ بیان منسوب کر دیا کہ Pakistan would be injurious to India as a whole and to Muslim specially اور اس حوالے سے یہی بیان نہرو کی Discovery of India میں دہرایا گیا۔ تھامسن نے یہ من گھڑت افسانہ اپنی کتاب ’’ہندوستان کو آزادی کے لیے تیار کرو‘‘ میں تحریر کیا جو لندن سے 1940ء میں شائع ہوئی۔ تھامسن نے اسی طرح کے خیالات دو سال بعد 1942 میں اپنی کتاب ’’عصر حاضر کے ہندوستان میں اخلاقی تخیلات‘‘ میں دہرائے مگر اس نے یہ سارے جھوٹ اس وقت بیان کیے جب علامہ اس کی تردید کے لیے موجود نہ تھے۔ بلکہ تھامسن کے ان مفروضہ بیانات کی تائید نہ تو علامہ کے ٹائمز میں شائع ہونے والے خط سے ہوتی ہے نہ ہی بعدازاں علامہ کی سیاسی فکر اور حکمت عملی سے۔ علامہ کا 10 اکتوبر 1931 ء کا خط جو تھامسن کے جواب میں ٹائمز میں 12اکتوبر 1931ء کو شائع ہوا س میں علامہ نے لکھا:
’’میں ہندوستان کے ایسے صوبوں کی از سر نو تقسیم کا حامی ہوں جن میں کسی ایک فرقہ کی موثر اکثریت ہو۔ جس کی تائید نہرو اور سائمن رپورٹ نے بھی کی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مسلم صوبوں کے متعلق میری تجویز اسی تصور کو آگے بڑھاتی ہے۔ ہندوستان کی سرحد پر مطمئن اور منظم مسلم صوبوں کا ایک سلسلہ سطح مرتفع ایشیا کی بھوکی نسلوں کے خلاف ہندوستان کے لیے اور برطانوی سلطنت کے لیے )اگر یہ بندوبست سلطنت برطانیہ کے اندر ہوا تو ( ایک فصیل ثابت ہو گا‘‘۔
اس خط میں redistribution کا لفظ بتا رہا ہے کہ پان اسلام ازم کے نام پر تمام تر مخالف پراپگینڈے کے باوجود علامہ کا موقف بدستور وہی تھا جو انہوں نے خطبہ الٰہ آباد میں پیش کیا تھا۔ پھر دوسری گول میز کانفرنس میں علامہ نے کھلے اجلاس میں اپنے خطاب میں کہا تھا کہ صوبوں کو مکمل خود مختاری دی جانی چاہیے، لیکن ہندستان میں ان کا کوئی مشترکہ مرکز نہ ہو اور وہ آزاد ریاستیں ہوں۔ قائد اعظم کے ساتھ اس کے بعد ہونے والی مراسلت میں جسے بعد ازاں خود قائد اعظم نے 27 مارچ 1943ء کو اپنے پیش لفظ کے ساتھ لاہور سے شائع کروایا، علامہ کے اسی موقف کا تسلسل نظر آتا ہے۔ 28 مئی 1937ء کو قائد اعظم کے نام لکھا:
’’خوش قسمتی سے اسلامی قانون کے نفاذ میں ا سکا حل موجود ہے او ر موجودہ نظریات کی روشنی میں مزید ترقی کا امکان ہے۔ اسلامی قانون کے طویل اور عمیق مطالعہ کے بعد میں ا س نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظام قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہر شخص کے لیے کم از کم حق معاش محفوظ ہو جاتا ہے۔ لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقا ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اس ملک میں ناممکن ہے۔ سالٰہاسال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہے اور اب بھی میرا ایمان ہے کہ مسلمانوں کی غربت اور ہندوستان میں امن و امان کا قیام اسی سے حل ہو سکتا ہے۔ اگر ہندوستان میں یہ ممکن نہیں تو پھر دوسرا متبادل راستہ صرف خانہ جنگی ہے جو فی الحقیقت ہندوو مسلم فسادات کی شکل میں کچھ عرصہ سے جاری ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ملک کے بعض حصوں مثلاً شمال مغربی ہندوستان میں فلسطین کی داستان دہرائی جائے گی۔ جواہر لال نہرو کی اشتراکیت کا ہندووں کی ہیئت سیاسیہ کے ساتھ پیوند بھی خود ہندووں کے آپس میں خون خرابہ کا باعث ہو گا‘‘۔
1937ء کا یہ خط واضح کرتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک الگ اور آزاد ریاست کے قیام کے موقف پر علامہ زندگی بھر قائم رہے۔ اسلامی قانون کے نفاذ اور آزاد اسلامی ریاستوں کا ذکر کر کے علامہ نے واضح کر دیا کہ مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے اسلامی قانون کا نفاذ ضروری ہے اور اسلامی قانون کے نفاذ کیلیے آزاد ریاست کا قیام ضروری ہے۔ جب 1936-37ء میں کانگرس کو کامیابی حاصل ہوئی تو پنڈت نہرو نے مسلم لیگ کے سیاسی وجود سے ہی انکار کر دیا اور مسلم ر ابطہ عوام تحریک شروع کر دی تا کہ مسلم عوام کو اپنے دام میں پھنسایا جائے۔ علامہ اقبال نے اس موقع پر 20مارچ 1937ء کو قائد عظم کو مشورہ دیا کہ: سیاسی مطمع نظر کی حیثیت سے مسلمانان ہند جداگانہ سیاسی وجود رکھتے ہیں۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اندرون اور بیرون ہند کی دنیا کو بتا دیا جائے کہ ملک میں صرف اقتصادی مسئلہ ہی نہیں بلکہ اسلامی نقطہ نگاہ سے تہذیب اسلامی کا مستقبل ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے اپنے اندر زیادہ اہم نتائج رکھتا ہے۔
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ علامہ کے ا س مشورے کی پوری بازگشت ہمیں قائد اعظم کے مارچ 1940ء کے قراردار پاکستان کیاجلاس کے خطاب میں نظر آتی ہے۔ 28 مئی 1937ء کے خط کے آخر میں علامہ قائد اعظم کے نام لکھتے ہیں:
’’مسلم ہندوستان کے ان مسائل کا حل آسان طور پر کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملک کو ایک یا زیادہ مسلم ریاستوں میں تقسیم کیا جائے جہاں پر مسلمانوں کی واضح اکثریت ہو۔ کیا آپ کی رائے میں اس مطالبہ کا وقت نہیں آ پہنچا۔ شایدجواہر لال نہرو کی لا دین اشتراکیت کا آپ کے پاس یہ ایک بہترین جواب ہے‘‘۔
اسی طرح 21 جون 1937ء کو قائد اعظم کے نام خط میں علامہ نے وفاق ہند کی تجویز کو بیکارقرار دیا اور بڑے ہی پر زور الفاظ میں آزاد ریاست کے موقف کا اعادہ کیا، جسے وہ خطبہ الٰہ آباد میں پیش کر چکے تھے:
’’کانگریس کے صدر نے تو غیر مبہم الفاظ میں مسلمانوں کے جداگانہ سیاسی وجود سے ہی انکار کر دیا ہے۔ ہندووں کی دوسری سیاسی جماعت یعنی مہاسبھا نے جسے میں ہندو عوام کی حقیقی نمائندہ سمجھتا ہوں بارہا اعلان کیا ہے کہ ہندوستان میں ایک متحدہ ہندو مسلم قوم کا وجود ناممکن ہے۔ ان حالات کے پیش نظر بدیہی حل یہی ہے کہ ہندوستان میں قیام امن کے لیے ملک کی از سر نو تقسیم کی جائے۔ جس کی بنیاد نسلی، مذہبی اور لسانی اشتراک پر ہو۔ بہت سے برطانوی مدبرین بھی ایساہی محسوس کرتے ہیں اور اس دستور کے ذیل میں جو ہندو مسلم فسادات چلے آ رہے ہیں وہ ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں کہ ملک کی حقیقی صورتحال کیا ہے؟ مجھے یاد ہے کہ انگلستان سے روانگی سے قبل لارڈ لوتھیان نے مجھے کہا تھا کہ میری سکیم میں ہندوستان کے مصائب کا واحد حل ہے لیکن اس پر عمل درآمد کے لیے ۵۲ سال درکار ہیں۔ پنجاب کے کچھ مسلمان شمال مغربی ہندوستان میں مسلم کانفرنس کے انعقاد کی تجویز پیش کر رہے ہیں اور یہ تجویز تیزی سے مقبولیت اختیار کر رہی ہے۔ مجھے آپ سے اتفاق ہے کہ ہماری قوم ابھی اتنی زیادہ منظم نہیں ہوئی اور نہ ہی ان میں اتنا نظم وضبط ہے اور شاید ایسی کانفرنس کے انعقاد کا ابھی موزوں وقت بھی نہیں لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ آپ کو اپنے خطبہ میں کم از کم اس طریق عمل کی طرف اشارہ ضرور کر دینا چاہیے جو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر اختیار کرنا پڑے گا۔ میرے خیال میں تو نئے دستور میں ہندوستان بھر کو ایک ہی وفاق میں مربوط رکھنے کی تجویز بالکل بے کار ہے۔ مسلم صوبوں کے ایک جداگانہ وفاق کا قیام اس طریق پر جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے صرف واحد راستہ ہے جس سے ہندوستان میں امن و امان قائم ہو گا اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے غلبہ و تسلط سے بچایا جا سکے گا۔ کیوں نہ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو علیحدہ اقوام تصور کیا جائے جنہیں ہندوستان اور بیرون ہندوستان کی دوسری اقوام کی طرح حق خوداختیاری حاصل ہو‘‘۔
یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری ہے کہ علامہ نے یہ خطوط قائد اعظم کو اس حیثیت میں لکھے کہ وہ انہیں مسلمانان ہند کا نجات دہندہ سمجھتے تھے اور انہیں یقین تھا کہ قائد اعظم ہی اس طوفان بے یقینی میں مسلمانوں کو منزل تک پہنچاسکتے ہیں۔ اور یہ تمام خطوط قائد اعظم کو بصیغہ راز لکھے گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خطوط جو قائد اعظم نے علامہ اقبال کو لکھے تھے وہ کہیں دستیاب نہیں ہیں۔ ان ناگفتہ بہ حالات کا اظہار ان خطوط میں بھی کیا گیا ہے۔ 12جون 1937ء کے خط میں علامہ لکھتے ہیں:
’’ہم فی الحقیقت خانہ جنگی کی حالت ہی میں ہیں اگر فوج اور پولیس نہ ہو تو یہ خانہ جنگی دیکھتے ہی دیکھتے پھیل جائے گزشتہ چند ماہ سے ہندو مسلم فسادات کا ایک سلسلہ قائم ہو چکا ہے۔ صرف شمال مغربی ہندوستان میں گزشتہ تین ماہ میں کم از کم تین فرقہ وارانہ فسادات ہو چکے ہیں اور کم از کم چار وارداتیں ہندووں اور سکھوں کی طرف سے توہین رسالت کی ہو چکی ہیں۔ ان چاروں مواقع پر رسول کی اہانت کرنے والوں کو قتل کر دیا گیا ہے۔ سندھ میں قرآن مجید کو نذر آتش کرنے کے واقعات بھی پیش آئے ہیں‘‘۔
میں اپنی وفات سے تقریباً ڈیڑھ ماہ پہلے 9 مارچ 1938ء کوعلامہ کا مضمون ’’جغرافیائی حدود اور مسلمان‘‘ شائع ہوا تھا جس میں تصور قومیت کے بارے میں جملہ شبہات کا ازالٰہ کیاگیا تھا۔ اس مضمون میں علامہ اقبال انگریزوں سے آزادی کے ساتھ ساتھ ہندووں کے تسلط سے نجات بھی ضروری قرار دیتے ہیں۔ آزادی اور الگ وطن کا حصول علامہ کے نزدیک کسی مقصد کے لیے ہے اور وہ مقصد ہے اسلام اور مسلمانوں کو مضبوط اور مستحکم کرنا۔ اس مضمون کا اختتام علامہ نے ان الفاظ پر کیا:
’’مسلمان ہونے کی حیثیت سے انگریز کی غلامی کے بند توڑنا اور اس کے اقتدار کا خاتمہ کرنا ہمارا فرض ہے۔ اور اس آزادی سے ہمارا مقصد یہی نہیں کہ ہم آزاد ہوجائیں، بلکہ ہمارا اول مقصد یہ ہے، اسلام قائم رہے اور مسلمان طاقتور بن جائے۔ اس لیے مسلمان کسی ایسی حکومت کے قیام میں مددگار نہیں ہوسکتا، جس کی بنیادیں انھیں اصولوں ہوں جن پر انگریزی حکومت قائم ہے۔ ایک باطل کو مٹا کر دوسرے باطل کو قائم کرنا چہ معنی دارد؟ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کلیتاً نہیں تو ایک بڑی حد تک دارالاسلام بن جائے۔ لیکن اگر آزدایِ ہند کا نتیجہ یہ ہو کہ جیسا دارالکفر ہے ویسا ہی رہے، یا اس سے بھی بدترین بن جائے، تو مسلمان ایسی آزادیِ وطن پر ہزار مرتبہ لعنت بھیجتا ہے ایسی آزادی کی راہ میں لکھنا، بولنا، روپیہ صرف کرنا، لاٹھیاں کھانا، جیل جانا، گولی کا نشانہ بننا سب کچھ حرام اور قطعی حرام سمجھتا ہے‘‘۔
علامہ کی زندگی کی یہ آخری نثری تحریر ان کے خطبہ الٰہ آباد کے موقف کی تکمیل ہے۔ مغالطے اس وقت ہی پیدا ہوتے ہیں جب مخصوص مفادات کے تحت حقائق کو مسخ کر کے اور سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کیا جائے۔