شام سے انخلاء کا امریکی اعلان ترکی کارروائی کو تیار

428
شام: امریکی فوج کے انخلا پر کرد علاحدگی پسند مظاہرہ کررہے ہیں‘ ترکی کی بکتربند گاڑیاں ہمسایہ ملک میں داخل ہورہی ہیں
شام: امریکی فوج کے انخلا پر کرد علاحدگی پسند مظاہرہ کررہے ہیں‘ ترکی کی بکتربند گاڑیاں ہمسایہ ملک میں داخل ہورہی ہیں

واشنگٹن/ انقرہ (انٹرنیشنل ڈیسک) امریکا نے شمال مشرقی شام میں تُرک فوج کے داخلے سے قبل وہاں تعینات اپنے فوجی دستے واپس بلانا شروع کر دیے ہیں۔ وائٹ ہاؤس نے اتوار کی شام اعلان کیا تھا کہ امریکا اس شامی علاقے میں فوجی پیش قدمی میں ترکی کی حمایت نہیں کرنا چاہتا۔ اس تناظر میں شمال مشرقی شام سے امریکی فوج کا انخلا پیر کے روز شروع ہو گیا۔ یہ ترکی اور شام کے درمیان سرحد کے قریب وہی شامی علاقہ ہے، جو کرد ملیشیا وائی پی جی کے کنٹرول میں ہے اور جہاں تُرک حکومت اس ملیشیا کے ارکان کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی شام سے امریکی فوج کے انخلا کا دفاع کیا ہے۔ ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ ہم نہ ختم ہونے والی بے کار جنگوں سے کنارہ کشی اختیار کریں، جو زیادہ تر قبائلی نوعیت کی ہیں۔ ہمیں اپنے فوجیوں کو واپس بلانا چاہیے۔ ہم صرف وہ جنگیں لڑیں گے، جن میں ہمارا مفاد ہو اور ہم صرف جیتنے کے لیے لڑیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے تو شام میں صرف 30 دن تک رہنا تھا، لیکن اب بہت سال گزر گئے ہیں۔ ہم وہاں رہے ہیں اور بغیر کسی مقصد کے اس لڑائی میں الجھتے ہی چلے گئے۔ جب میں واشنگٹن میں وارد ہوا تو علاقے میں داعش کا اثرورسوخ تھا۔ہم نے بہت جلد داعش کی خلافت کو سو فیصد تک شکست سے دوچار کیا۔ انہوں نے کہا کہ کردوں نے ہم سے مل کر لڑائی لڑی، لیکن انہیں اس مقصد کے لیے بھاری رقوم اور آلات دیے گئے۔ وہ ترکی سے عشروں سے لڑتے چلے آرہے تھے۔ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ اب ترکی، یورپ، شام، ایران، عراق، روس اور کردوں کو طے کرنا ہے کہ وہ اس صورت حال میں کیا کرنا چاہتے ہیں، اور داعش کے گرفتار جنگجوؤں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سب داعش کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ ہم وہاں سے 7ہزار میل دور ہیں اور اگر داعش کے جنگجو ہمارے قریب آئے تو ہم انہیں تباہ کر دیں گے۔ دوسری جانب تُرک صدر رجب طیب اردوان نے امریکی صدر سے ٹیلی فون پر بات کی ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے پیر کے روز صحافیوں کو بتایا۔ شام میں کارروائی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم مذاکرات اسی عزم کے ساتھ جاری رکھیں گے۔ ہم نے ایک فیصلہ کررکھا ہے کہ ہم کسی رات اچانک پہنچ جائیں گے اور اس فیصلے پر پہلے دن والے عزم و ارادے کے ساتھ بدستور قائم ہیں۔ ہمارے لیے دہشت گرد تنظیموں کے خطرات قبول کرنا ممکن نہیں۔