قال اللہ تعالیٰ و قال رسول اللہ ﷺ

404

جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور خرچ کر کے پھر احسان جتاتے، نہ دکھ دیتے ہیں، اْن کا اجر اْن کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی رنج اور خوف کا موقع نہیں۔ ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اْس خیرات سے بہتر ہے، جس کے پیچھے دکھ ہو اللہ بے نیاز ہے اور بردباری اْس کی صفت ہے۔ اے ایمان لانے والو! اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دکھ دے کر اْس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو، جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایما ن رکھتا ہے، نہ آخرت پر اْس کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک چٹان تھی، جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی اس پر جب زور کا مینہ برسا، تو ساری مٹی بہہ گئی اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں، اس سے کچھ بھی اْن کے ہاتھ نہیں آتا، اور کافروں کو سیدھی راہ دکھانا اللہ کا دستور نہیں ہے۔(سورۃ البقرۃ:262تا264)

سیدنا سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے کہ: نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا: ’’رات (خواب میں) میں نے دو آدمی دیکھے، وہ دونوں میرے پاس آئے اور مجھے بیت المقدس میں لے گئے پھر ہم سب وہاں سے چلے یہاں تک کہ ہم ایک خون کی نہر پر آئے وہاں (نہر کے کنارے) ایک شخص کھڑا ہوا تھا اور نہر کے بیچ میں بھی ایک شخص کھڑا تھا (نہر کے کنارے پر) کھڑے ہونے والے کے سامنے پتھر پڑے ہوئے تھے بیچ نہر والا آدمی آتا اور جونہی وہ چاہتا کہ باہر نکل جائے فوراً ہی باہر والا شخص اس کے منہ پر پتھر کھینچ کر مارتا جو اسے وہیں لوٹا دیتا تھا جہاں وہ پہلے تھا اسی طرح جب بھی وہ نکلنا چاہتا کنارے پر کھڑا ہوا شخص اس کے منہ پر پتھر کھینچ مارتا اور وہ جہاں تھا وہیں پھر لوٹ جاتا۔ میں نے (اپنے ساتھیوں سے جو فرشتے تھے) پوچھا کہ یہ کیا ہے تو انہوں نے اس کا جواب یہ دیا کہ: نہر میں آپ نے جس شخص کو دیکھا وہ سود کھانے والا انسان ہے۔ (بخاری)