فضائلِ سیدنا ابوبکر صدیقؓ ، بزبان اسلاف

289

علامہ سید ابو الحسن ندوی کہتے ہیں: ’’تمام مسلمانوں نے سقیفہ بنو ساعدہ میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کی۔ اس عجلت کا مقصد یہ تھا کہ شیطان کو ان کے دِلوں میں پھوٹ ڈالنے اور رختہ پیدا کرنے کا موقع نہ ملے اور نفسانی خواہشات سر اْٹھا نہ سکیں اور نبی پاکؓ اپنے آخری سفر پر اس حال میں روانہ ہوں کہ مسلمان ایک رشتے میں منسلک اور پوری طرح متحد، ہم رنگ وہم آہنگ ہوں، ان کا امیر موجود ہو اور ان کے سارے معاملات کی دیکھ بھال کر رہا ہو حتیٰ کہ خود نبی پاکؐ کی تجہیز و تکفین اور تدفین کا کام بھی امیر المومنین او خلیفۃ المسلمین کے ہاتھوں انجام پائے۔ (نبی رحمت ص 578) شمائل الترمذی کے مطابق آپؐ کے جسد اطہر کو غسل دینے کے موقع پر اختلاف ہوا، ہر ایک کا کہنا تھا کہ غسل ہم دیں گے تو صدیق اکبرؓ نے حکم دیا کہ ’’آپؐ کو غسل آپ کے عصبات ہی دیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ سقیفہ بنو ساعدہ کی بیعت کے بعد دوسرے روز منبر نبوی کے پاس تمام مسلمانوں نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی بیعت کی۔ اس کے بعد آپؓ نے خطبہ دیا۔ جس میں حمدو ثنا کے بعد فرمایا: ’’اے لوگو! مجھے تمہارا امیر بنا دیا گیا، حالانکہ مَیں تم سب سے افضل نہیں ہوں۔ اگر مَیں اچھا کام کروں، تو میری مدد کرو۔ اگر غلطی کروں تو میری درستی کرو۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت۔ تم میں سے کمزور آدمی میرے نزدیک طاقتور ہے، مَیں اس کا حق دِلا کر دم لوں گا۔ تم میں سے طاقتور آدمی میرے نزدیک کمزورہے، مَیں اس سے دوسرے حق لے کر رہوں گا۔ کوئی بھی قوم اللہ کی راہ میں جہاد ترک نہیں کرتی، مگر اللہ تعالیٰ انہیں رسوئی سے دو چار کرتا ہے۔ کسی معاشرے میں بے حیائی عام نہیں ہوتی، مگر اللہ تعالیٰ انہیں آزمائش میں ڈال دیتا ہے۔ تم میری اطاعت کرتے رہو جب تک مَیں اللہ کی اطاعت کرتا رہوں۔ جب مَیں اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرنے لگوں تو میری اطاعت ضروری نہیں‘‘۔ (سیرت ابن ہشام)
انہی ایام میں سیدۃ النساء فاطمہ وفات پا گئی۔ آپ ؓ کی بیماری کے دوران چھے مہینے تک سیدنا علیؓ تیمار داری میں مصروف رہنے کی وجہ سے پبلک لائف میں نہ آ سکے تھے۔ سیدۃ النساء کی وفات کے بعد آپ باقاعدہ طور پر پبلک لائف میں آئے اور بیعت کی تجدید کرنے کے لیے صدیق اکبرؓ کو گھر بلایا۔ سیدنا علیؓ نے کلمہ تشہد کے بعد فرمایا: ’’ہم آپ کی فضیلت اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا ہے، اسے اچھی طرح جانتے ہیں اور جو خیر اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف خود ہی طے کر لیا۔ ہم آپؐ کے قرابت دار ہونے کے ناتے سے اپنا حصہ سمجھتے تھے‘‘۔ یہ سن کر صدیق اکبرؓ کی آنکھیں نمناک ہوگئیں اور شکوے کا ازالہ کرتے ہوئے کہا: ’’اللہ کی قسم نبی پاکؐ کی قرابت داری کا لحاظ میری اپنی قرابت داری سے زیادہ عزیز ہے۔ جہاں تک ان بعض اموال کے حوالے سے اختلاف کا تعلق ہے، مَیں نے بہتری کی تلاش میں کوتاہی نہیں کی ہے اور نہ ہی مَیں نے نبی پاکؐ کا طریقہ چھوڑ دیا ہے، بلکہ مَیں آپؐ کے نقش قدم پر ہی چلا ہوں‘‘۔ یہ سن کر سیدنا علیؓ نے کہا: ’’بیعت آج شام ہو گی‘‘۔ جب ابوبکر صدیقؓ نے ظہر کی نماز پڑھی تو منبر پر چڑھے اور سیدنا علیؓ نے چند مہینوں کے لیے بیعت نہ کرنے کی وجوہات سے عوام کو آگاہ کر دیا اور ان کی معذرت قبول کی۔ اس کے بعد سیدنا علیؓ منبر پر چڑھے حمد و تشہد کے بعد ابوبکر صدیقؓ کے خوب حقوق بیان کیے اور کہا کہ کچھ وقت آپ کی بیعت سے اس لیے پیچھے ہٹا نہیں تھا کہ ان کے ساتھ مقابلہ کرنے کا ارادہ تھا، یا ابوبکر صدیقؓ کے فضائل کا انکار تھا یا حسد کا جذبہ کار فرما تھا، بلکہ ہم سمجھتے تھے کہ خلافت کی گتھی کو سلجھانے میں ہمارا بھی حق ہے مگر آپ نے ہم سے مشورہ نہیں لیا جس پر ہمارے دِلوں میں کچھ احساسِ محرومی پیدا ہوا تھا۔ یہ سنکر تمام مسلمان خوش ہوئے اور معاً کہا: ’’آپ نے درست فرمایا‘‘۔ جب سیدنا علیؓ بطریق احسن اس معاملے کے ساتھ پیش آئے، تو تمام مسلمانوں کی الفت و محبت آپ کے ساتھ ہوگئی۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوہ خیبر)
علامہ ابن ابی الحدید نے بیان کیا ہے کہ آپؓ نے فرمایا:’’ ہم صرف مشاورت کے حوالے سے ناراض ہوئے تھے۔ (شرح ابن ابی الحدید 132/1) مولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ حا فظ ابن حجرؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’سیدنا علیؓ نے دو دفعہ بیعت کی، پہلی بار مسجد نبوی میں بیعت عامہ کے موقع پر، دوسری بار بیعت تجدید و رضا، جو فاطمہ الزہراؓ کی وفات کے بعد ہوئی۔ حبیب بن ثابت کے قول سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ سیدنا علیؓ گھر میں بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک آنے والے نے کہا: ابوبکر صدیقؓ بیعت کے لیے تشریف رکھے ہوئے ہیں۔ یہ سن کر آپؓ قمیص میں باہر نکلے، نہ چادر تھی نہ تہبند کہ دیر نہ ہو جائے، اسی حالت میں تشریف لا کر بیعت کی۔ ابوبکر صدیقؓ کے پاس بیٹھے، پھر چادر وغیرہ لینے بھیجا۔ (طبری447/2)
صحابہ کرام تلامذہ نبی پاکؐ اس امر سے کہیں بالاتر تھے کہ وہ قیادت و ریاست کے لیے مقابلے کریں۔ وہ ہمیشہ اس چیز سے بدکتے تھے۔ خود ابوبکر صدیقؓ نے ایک بار فرمایا: ’’اللہ کی قسم مَیں کبھی بھی امارت کا شوقین نہ تھا، نہ ہی اس کی چاہت رکھتا تھا، نہ ہی اللہ تعالیٰ سے اس کی طلب تھی۔ ہاں مَیں نے اْمت کے فتنے میں پڑنے سے خوف کھایا۔ مجھے یہ پسند ہے کہ کوئی طاقتور مہاجر بھائی میری جگہ ہوتا‘‘۔
سیدنا و مولانا علیؓ کے پاس جب لوگ بیعت کرنے کے لیے پہنچے تو فرمایا: ’’مجھے چھوڑ دو کسی اور کو ڈھونڈو، میرا تمہارے لیے وزیر و مشیر ہونا امیر ہونے سے بہتر ہے‘‘۔ سیدنا علیؓ نے سیدنا طلحہ و زبیرؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’اللہ کی قسم! مجھے تو کبھی بھی اپنے لیے خلافت اور حکومت کی تمنا نہیں رہی۔ تم ہی لوگوں نے مجھے اس طرف دعوت دی اور اس پر آمادہ کیا‘‘۔ اگر لوگ آپ کو نہ بلاتے اور مزید دنگا و فساد کا اندیشہ نہ ہوتا تو آپؓ اس بوجھ کو قبول نہ کرتے۔
ابوبکر صدیقؓ کی خلافت منصوص من النبی تھی، جلی یا خفی؟ یا شورائی طریقے سے تھی؟ ہر دو آراء موجود ہیں، لیکن اس امر میں کوئی اختلاف نہیں کہ نبی پاکؐ کے بعد آپ پر براہ راست خلافت بلا فصل کے واحد حق دار تھے۔
سیدنا جبیر بن مطعمؓ کا بیان ہے کہ ایک عورت نبی پاکؐ کے پاس آئی۔ آپؐ نے اس کا مسئلہ حل فرمایا اور ضرورت پیش آنے پر دوبارہ آنے کو کہا۔ وہ کہنے لگی اگر مَیں دوبارہ آؤں اور آپؐ کو نہ پاؤں؟ گویا وہ آپؐ کی وفات کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’اگر مجھے نہ پائے تو ابوبکر کے پاس آنا‘‘۔ (بخاری)
سیدنا حذیفہ بن الیمانؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’لوگو! تم میرے بعد ابوبکر و عمر کی اقتداء کرو‘‘۔علامہ علی بن ابراہیم القمی آیت ( واذ اسر النبی الٰی بعض ازواجہ حدیثا) کی شان نزول میں لکھتے ہیں کہ آپؐ نے اپنی زوجہ محترمہ حفصہ بنت عمرؓ سے فرمایا کہ مَیں تجھے ایک راز بتاتا ہوں کہ ’’میرے بعد ابوبکر اس کے بعد عمر خلیفہ ہوں گے۔ کہنے لگی: آپ کو یہ بات کس نے بتائی؟ فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے‘‘۔ (تفسیر القمی، تفسیر صافی، المیزان فی تفسیر القرآن للطباطبائی، تفسیر امام حسن العسکری، تفسیر طبرسی المعروف بمحمع البیان تفسیر ابن مردویہ)
شہید کربلا امام حسینؓ فرماتے ہیں کہ قیس بن سعد اور ابن الکواء کے ایک سوال کے جواب میں شہر بصرہ میں امیر المومنین علیؓ نے فرمایا: ’’اگر یہ بات ہو کہ نبی پاکؐ نے کوئی عہد کیا ہو، تو یہ بات بالکل صحیح نہیں ہے۔ اللہ کی قسم مَیں نے سب سے پہلے نبی پاکؐ کی تصدیق کی تھی اور اب مَیں سب سے پہلے آپ پر جھوٹ نہیں بولوں گا۔ اگر اس معاملے میں نبی پاکؐ کی طرف سے کوئی عہد ہوتا، تو مَیں تیم بن مرۃ کو کبھی نہ چھوڑتا کہ وہ منبر رسولؐ پر کھڑے ہوں… لیکن نبی پاکؐ نہ تو قتل ہوئے ہیں اور نہ آپؐ کی موت ناگہانی طور پر ہوئی۔ آپؐ بیماری میں کئی روز اور کئی راتیں رہے۔ آپؐ کے پاس موذن آتا اور نماز کی اطلاع دیتا تو آپ ابوبکرؓ کو حکم دیتے کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے، بلکہ مَیں بھی موجود ہوتا آپؐ مجھے دیکھ رہے ہوتے… جب اللہ نے اپنے نبیؐ کو اٹھا لیا تو ہم نے اپنے امور میں غور کیا تو ہم نے اپنی دنیا کے لیے اسی شخص کو منتخب کر لیا جس کو نبی پاکؐ نے ہمارے دین کے لیے پسند کیا تھا اور نماز تو اسلام کی جڑ اور دین کی امیر تھی۔ تو ہم نے ابوبکرؓ کی بیعت کر لی اور وہ اس کے لائق بھی تھے‘‘۔ (مسند اہل بیت ح 1555، ابن عساکر) یہی مضمون معمولی فرق کے ساتھ اسد الغابہ، بیہقی وغیرہ میں بھی ہے۔ نیز تلخیص الشافی للطوسی 428/2 الغارات اللثقفی 307/1۔
علامہ ابن ابی الحدید لکھتا ہے کہ ہمارے قدیم و متاخر بصری و بغدادی علماء لکھتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی بیعت صحیح، شرعی اور قانونی بیعت تھی۔ یہ بیعت نص سے نہیں، بلکہ انتخاب سے عمل میں آئی تھی، جس پر اجماع ہوگیا تھا اور یہ بھی انتخاب کا طریقہ ہے۔ (شرح نہج 7/1)