انقلاب کا عنوان …. سید صاحب

232

( سیکرٹری اطلاعات جماعت اسلامی پاکستان)
ویسے تو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا نام سامنے آتے ہی کئی الفاظ، خطابات، عنوانات ذہن کے افق پر ابھرتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا اصرار ہوتا ہے کہ اسے سید مودودیؒ کی شخصیت کے ساتھ جوڑا جائے ایسی ہی صورت حال دنیا کے مختلف خطوں میں موجود انسانوں کی بھی ہے جو ان سے کبھی ملے نہیں، انھیں دیکھا نہیں، صرف ان کے لٹریچر کے ذریعے انھیں اس مردِ حق کے ساتھ تعارف ہوا اور پھر وہ ان کے گرویدہ ہو گئے ان کے دلوں میں عقیدت پیدا ہوئی۔ یہ مولانا کا وہ اثاثہ ہے جو ان کی زندگی میں بھی حاصل تھا اور ان کی وفات کے بعد بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ سید صاحب نے اسلام کے ہمہ پہلو عظیم لٹریچر تیار کیا اور اسلام کے بارے میں اعتراضات کا مدلل جواب دیا اور یہ ثابت کیا کہ اسلام کو ایک نظام زندگی کے طور پر نافذ کیا جا سکتا ہے۔انھوں نے مذہبی، اخلاقی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی پہلوئوں پر ایک سو بیس سے زیادہ کتب تصنیف کی ہیں۔ وہ قرآن، حدیث و فقہ کے ساتھ ساتھ عمرانی مسائل، فلسفہ، معاشیات اور علم سیاسیات کے معتبر عالم ہیں۔ ان کے افکار کا اثر زندگی اور ادب کے ہر شعبے میں صاف محسوس ہوتا ہے، ان کے پُر زور دلائل کے سامنے تہذیب حاضر کا فلسفہ منہ کے بل گرا نظر آتا ہے۔
ان کی اپنی دل آویز شخصیت، دل نشین طرزِ انشا اور دل کش اسلوب تحریر نے مسلمانوں کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا ہے، یہ مولانا کی فکر اور جستجو کا نتیجہ ہے کہ جدید انداز میںایک منظم اور مربوط مذہبی اور سیاسی جماعت بنا کر اسے اعلیٰ نظم و ضبط اور عمدہ تربیت دی ہے کہ جس سے ایک عام مسلمان کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی امید بندھتی ہے ۔ سید مودودیؒ ہی مسلمانوں کی سب سے بڑی آرزو یعنی تعمیر ریاست اسلامی اور اتحاد و عالم اسلامی کی علامت ہیں۔ ان کا مطمئن اور شگفتہ چہرہ مردِ مومن کے اوصاف کی عملی تفسیر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو سید مودودیؒ اور جماعت اسلامی اور اس سے بڑھ کر خدا اور رسولﷺ کے ساتھ جو فدایانہ وابستگی اور وارفتگی ہے خال خال ہی کسی تحریک کے کارکنوں میں پائی جاتی ہے، یہاں اس مختصر تحریر میں سید مودودیؒ کے کارنامے کا ذکر تو ممکن نہیں لیکن یہاں چند لائنوں میں ان کی شخصیت کا تذکرہ مقصود ہے ،جس سے ان کی زندگی کی ہلکی سی جھلک محسوس کی جا سکتی ہے۔
یہ والدین اور خاندان کا گہرا اثر تھا کہ انھوں نے قرآن مجید کواپنا واحد رہنما بنایا اور عملی طور پر سیرت رسولﷺ کی پیروی اختیار کی۔ سید مودودیؒ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز 1920ء میں صحافت سے کیا۔ ’’تاج‘‘ کی ادارت سنبھالی اور پھر ’’الجمیعتہ‘‘ کے مدیر بنے۔ 1937ء تک اس رسالے نے آپ کی ادارت میں مسلم درست نقطۂ نظر پیش کیا، کانگرس اور اس کے ہندو نواز پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے مسلم لیگ اور دوسری مسلم تنظیموں کے ساتھ تھا۔ یہ وہ دور تھا جس میںمولانا تمام مسائل کا حل اسلام کی روشنی میں تلاش کرنے میں مصروف عمل تھے۔ ان کی ممتاز ترین تصنیف ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ جو امن و جنگ کے اسلامی قانون پر ایک شاہکار عملی کارنامہ ہے، منفرد اسلامی مفکر کی حیثیت سے ان کے تعارف کا باعث بنی اس کتاب کی علامہ اقبالؒ نے بھی بہت تحسین کی۔
اپنی فکر کی ترویج اور ایک تحریک برپا کرنے کے لیے آپ نے 1933ء میں ’’ترجمان القرآن‘‘ کی ادارت سنبھالی۔ مسائل سے نمٹنے کے لیے انھوں نے قرآن پر مبنی نیا اسلوب وضع کیا۔ اسلام کے بنیادی اصولوں اور افکار و اقتدار کی وضاحت کرتے ہوئے اسلام اور مغربی افکار کے تصادم سے پیدا ہونے والے مسائل کواپنا موضوع بنایا۔ علامہ اقبالؒ سے ان کا رابطہ رہا اور ان کی دعائیں بھی مولانا کو حاصل رہیں۔ مفکر پاکستان نے مولانا کو پنجاب میں اقامت پذیر ہونے کی دعوت بھی دی۔
سید مودودیؒ نے باصلاحیت اسکالرز کی تربیت، اسلامی تصانیف کے ترجمے اور اسلامی قوانین کی تدوین جدید کے لیے ایک تحقیقی مرکز ’’دارالاسلام‘‘ قائم کیا۔ اسلامی خطوط پر اسلامی معاشرے کی تشکیل نو سے متعلق اپنے افکار و تصورات کو باقاعدہ تنظیم کی صورت دینے کے لیے صرف 75ارکان کے ساتھ 1941ء میں سمن آباد لاہور میں ’’جماعت اسلامی‘‘ کی بنیاد رکھی۔ مولانا کی تحریروں اور کردار سے متاثر ہو کر بڑی تعداد میں لوگ جماعت اسلامی کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ کی تحریروں کی تازگی میں دانشوروں اور نوجوانوں کے لیے موثر اپیل تھی۔ ان کی عظیم خدمات میں سے ایک یہ ہے کہ انھوں نے نوجوانوں کو دہریت والحاد کا شکار ہونے سے بچایا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کی بنیاد رکھی جو ان کا کامیاب تجربہ سمجھی جاتی ہے۔ 1947ء سے انھوں نے پاکستان میں حقیقی اسلامی مملکت کے قیام کی ان تھک کوشش کی۔ یہ مولاناؒ کی پیدا کردہ تحریک کا نتیجہ تھا کہ 1949ء میں قرار داد مقاصد منظور ہوئی۔ 1950ء میں بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی رپورٹ میں اسلامی شقیں شامل ہوئیں اور 1956ء کے آئین میں اسلامی دفعات شامل کی گئیں۔
انسان کی اصلی قدروقیمت کا اندازہ ابتلا و آزمائش کے وقت ہی ہوتا ہے، آپ چار دفعہ جیل میں ڈالے گئے۔ موت کی سزا سنائی گئی۔ جیل میں بیماری کی حالت میں بہت ساری تکلیفوں سے گزرے، لیکن وہ ہر جگہ ہر وقت اپنے کارکنان کے سامنے مثالی نمونہ کی حیثیت سے نظر آئے۔ تحریک ختم نبوت میں سید مودودیؒ کے ’’قادیانی مسئلہ‘‘ نامی پمفلٹ نے قوم میں ایک نئی روح پھونک دی اور آخر کار قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت کردار دیا گیا۔ایرانی انقلاب کو بھی ان کی تحریروں سے قوت ملی۔ امام خمینی نے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی ایک نمایاں خدمت کا انکشاف کیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ مولانا شیعہ سنی اختلافات کو ختم کرانے اور اسلامی نشاۃ ثانیہ اور احیاء کی جدوجہد کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنا چاہتے تھے۔
مولانا 22ستمبر 1979ء کو امریکا کی ایک ریاست سے اس دنیا سے رخصت ہوئے، ان کی میت روانگی کے بعد پانچ براعظموں سے گزری اور ہر براعظم نے ان کی نماز جنازہ ادا کی ۔ یہ ایک اعجاز ہے جو مولانا کو وفات کے بعد نصیب ہوا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو ان کی نماز جنازہ میں نمائندگی ملی۔ ان کی جدوجہد پاکستان میں جماعت اسلامی کی صورت اور دنیا بھر میں مختلف اسلامی تحریکوں کی شکل میں نظر آتی ہے۔ خود تو 5-A ذیلدار پارک اچھرہ لاہور میں اپنی رہائش گاہ میںآرام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے۔ (آمین)
میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ سید مودودیؒ ایک ’’انقلاب کا عنوان‘‘ تھے جنھوں نے اسلام کا ہمہ گیر پیغام پوری دنیا میں پہنچایا اب پوری دنیا کے حالات بتا رہے ہیں کہ جس صبح انتظارتھا وہ آنے والی ہے ۔ کیونکہ مولانا نے کہا تھا کہ ’’جس طرح مجھے کل مشرق سے سورج طلوع ہونے کا یقین ہے اسی طرح اسلامی انقلاب کا یقین ہے۔‘‘