ہندو جمخانہ کیس: سپریم کورٹ نے فریقین سے تجاویز طلب کرلیں

208

کراچی: سپریم کورٹ نے ہندو جمخانہ کیس میں فریقین سے ایک ہفتے میں تجاویز طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ عدالت تجاویز کو پیش نظر رکھتے ہوئے حتمی فیصلہ کرے گی۔

ہندو جمخانہ کی ملکیت سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ہوئی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیرسربراہی جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے روبرو درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہندوجمخانہ ہندو برادری کی ملکیت ہے۔ سرکاری وکیل نے مؤقف پیش کیا کہ صوبائی حکومت نے ناپا کو مختلف متبادل آپشنز دیے ہیں۔

چیف جسٹس نے وکلا کا مؤقف سننے پر استفسار کیا کہ کمیونٹی کا تعین کس طرح سے کیا جاتا ہے؟

دوران سماعت رہنما پی پی رمیش کمار کا کہنا تھا کہ زمین سندھ حکومت کے حوالے کردی جائے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کراچی کی کوئی ایک عمارت ایسی بتائیں جسے حکومت سندھ نے محفوظ رکھا ہو، جس پر رمیش کمار نے جواب دیا کہ گورنر ہاؤس اور وزیراعلیٰ ہاؤس۔

چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر ہاؤس اور وزیراعلیٰ ہاؤس اس لیے صاف ہیں کہ وہاں عوام کا جانا نہیں ہوتا، ایسی جگہیں بتائیں جہاں عوام کا جانا ہوتا ہو اور وہ صاف ہوں، دنیا کا کوئی ایک ملک بتا دیں جہاں وزیراعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس کے باہر کنٹینر ہوں، جس پر رمیش کمار نے جواب دیا کہ پاکستان ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسا وقت بھی آئے گا، جب حکمرانوں کو خود کے بجائے عوام کی فکر ہوگی۔ ہمیں آپ سے زیادہ ہندو برادری کی فکر ہے، آپ قبضہ کرنا چاہتے ہیں ہم نہیں کرنے دیں گے۔ آپ کو تو یہ جگہ نہیں دیں گے آپ اس کو کل کچھ اور بنادیں گے۔

چیف جسٹس نے خوش گوار موڈ میں مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آج کل بڑا مسئلہ ہوتا ہے، ہمارے تمام کمنٹس شائع کردیے جاتے ہیں، آج کل ہر چیز خبر بن جاتی ہے، ہمارے لائٹ کمنٹس بھی شائع ہو جاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیس چلائیں اور بتائیں یہ جگہ کس کی ہے، فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ بلڈنگ سیٹھ رام گوپال داس نے 1925 میں تعمیر کی تھی، تقسیم کے بعد 1958 میں عمارت کو حکومت نے اپنی تحویل میں لیا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ تو مذہبی جگہ ہے عبادت گاہ ہے یا کیا ہے، فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ گل رل عمارت ہے، سرسید یونیورسٹی بھی ہے اور ناپا بھی ہے۔ پی پی رہنما رمیش کمار نے کہا کہ یہ ملکیت ہندوؤں کی ہے، ہمیں یہاں اپنی رسومات ادا کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، یہاں مندر بھی موجود ہے، اوم کے نشانات موجود ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ سپریم کورٹ جائیں، وہاں بسم اللہ لکھا ہوا ہے تو وہ مسجد تو نہیں ہوجائے گی، آپ تو پارلیمنٹیرین ہیں ایوان میں اوپر کیا لکھا ہے، رمیش کمار نے کہا کہ وہاں کلمہ لکھا ہوا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ تو کیا وہ مسجد کہلائے گی، ایسے دلائل مت دیں جس کی کوئی بنیاد ہی نہ ہو۔

رمیش کمار نے کہا کہ یہاں 15 لاکھ ہندو رہتے ہیں، یہ ہندوؤں کی تقریبات اور رسومات ادا کرنے کی جگہ ہونی چاہیے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بھی اپنی تقریبات کریں، یہ تو اچھا ہے جگہ محفوظ ہے، آپ 2002 سے پارلیمنٹیرین ہیں، یہ جگہ پولیس کے پاس گئی، آپ کو اعتراض نہیں تھا، فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے پاس گئی تو، آپ کو اعتراض نہیں تھا، نجی ملکیت میں گئی تو آپ کو اعتراض نہیں تھا۔

پی پی پی رہنما نے کہا کہ ہمارا دعویٰ 39 ہزار مربع گز زمین کا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ فریق بن کر ہمارے سامنے ہیں ہی نہیں،جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ ویسے کچھ بھی ہوں گے، مگر اس کیس میں آپ نہیں ہیں، آپ کا ذکر ہی نہیں کہیں۔

رمیش کمال نے کہا کہ ہمیں کسٹوڈین بنایا جائے تاکہ ہندو برادری اپنی سوشل سرگرمیاں کرسکے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ ہندو برادری کو الگ کیوں کرنا چاہتے ہیں، آپ ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہیریٹیج بلڈنگ کے تحفظ کے لیے لوگوں کے نام بتائیں جو کام کرسکیں، آپ لوگ ماہرین کے نام دیں تاکہ چند لوگوں کو ذمہ داری دی جائے، جس پر وکلا نے ماروی مظہر، عارف حسن، جاوید جبار، یاسمین لاری اور دیگر نام تجویز کردیے، رمیش کمار نے کہا کہ مجھے اور دیگر لوگوں کے ساتھ انسپیکشن کی اجازت دی جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو اس سے الگ رکھیں گے، آپ کے پاس پارلیمنٹ میں بہت کام ہے، حکومت سندھ نے ایک کام صرف اچھا کیا ہے، جیم خانہ کا تحفظ یقینی بنایا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ ثقافتی ورثہ کے تحفظ کے لیے محکمہ ثقافت کی کمیٹی موجود ہے۔

سپریم کورٹ نے حکومت سندھ کو عمارت کا تحفظ یقینی ننانے کا حکم دیا اور ریمارکس دیے کہ فریقین چاہیں تو ایک ماہ میں اپنی تجاویز دے سکتے ہیں، فریقین کی تجاویز کی روشنی میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔