فیصلہ کرنا ہوگا

269

پارلیمنٹ وجود میں آچکی ہے، وفاق اور صوبوں میں حکومتیں بن چکی ہیں، ابھی ہنی مون بھی مکمل نہیں ہوا کہ اپوزیشن کے صحن میں احتجاج کی گھاس پھوس اُگنا شروع ہوگئی ہے۔ پہلا جلسہ ہو چکا، اب دوسرا جلسہ بھی طے کرلیا گیا ہے یوں حکومت مخالف عوامی احتجاج کی گاڑی چل پڑی ہے، اس گاڑی میں ڈیزل کون بھر رہا ہے؟ یہ وہی پٹرول پمپ ہے جس کا مالک خود چین سے بیٹھ رہا ہے نہ کسی حکومت کو چین سے کام کرنے دے رہا ہے۔ ایک عرصہ قبل ملک میں دس اور بیس کے نوٹ سے متعلق یہ مخمصہ رہتا تھا کہ اس میں کون سا نوٹ اوپر ہوگا اور کون سا نیچے رکھا جائے، وجہ یہ تھی کہ بیس روپے کا نوٹ سائز کے اعتبار سے دس روپے کے پرانے نوٹ سے چھوٹا تھا، بس یہی جھگڑا ہماری سیاست میں ہے بڑا کون ہے؟ سیاست والے یا سیاست کو نہ چلنے دینے والے۔ جمہوریت بڑی ہے یا آمریت، یہ فیصلہ آج تک نہیں ہوسکا، جس روز یہ فیصلہ ہوگیا پاکستان میں سیاسی استحکام بھی آجائے گا اور معیشت کی گاڑی بھی چل پڑے گی، جب تک یہ نہیں ہوگا ہمارا وزیر اعظم دوست ممالک اور آئی ایم ایف کی دہلیز پر ہی بیٹھا رہے گا وہاں سے نہیں اٹھ سکے گا۔ ہر سیاسی جماعت دعویٰ یہی کرتی ہے کہ آئین پر عمل ہونا چاہیے جب آئین کے مطابق اسمبلی میں عدم اعتماد آتی ہے تو پھر عدم اعتماد لانے والوں کو غدار کہا جاتا ہے، یہ کیسا جمہوری نظام ہے جہاں آئین معطل کرنے والوں کو پناہ دی جاتی ہے ان کا تحفظ کیا جاتا ہے وہ انتقال کرجائیں تو احترام سے ان کی تدفین کی جاتی ہے، اور سیاسی راہنمائوں کے لیے؟ بس ان کے لیے ایک الگ ہی ماحول، ان کی زندگی اجیرن کی جاتی ہے۔
ہمیں شہباز شریف سے محبت ہے نہ نواز شریف سے کوئی اُنس ہے، آصف علی زرداری سے پیار ہے اور نہ عمران خان سے کوئی نفرت، ہمیں تو محترم جناب عالی جاہ سید مودویؒ کے اس جملے سے پیار ہے جو انہوں نے ایوب خان کو کہا تھا کہ ان کی کوئی حمایت نہیں کی جا سکتی کیونکہ جہاد کا اعلان صرف ایک اسلامی ریاست ہی کر سکتی ہے، ان کے اس جملے نے ایوب خان کو بتا دیا کہ ان کی حکومت کی اسلامی طرز حکومت کی نظر میں اوقات کیا ہے۔ ملک کے تمام سیاسی راہنمائوں کی صفوں میں ان کے بعد ان جیسا جرأت مند زیرک راہنماء آج تک نہیں مل سکا۔ ہم نے ضیاء الحق کا دور دیکھا، جس نے معیار یہ رکھا کہ ’’مے بھی پیو اور چندہ بھی دو مسجد میں، شیطان بھی خوش رہے اور شیخ بھی ناراض نہ ہو‘‘ مشرف نے کہا تھا جس کو مخلوط میراتھن دوڑ نہیں دیکھنی وہ اپنا ٹی وہ بند رکھیں۔ ذرا گن کر تو بتائیں کہ کتنے جمہوری سیاسی راہنماء تھے جو ایسی ہی آمریت کی راہ میں کانٹے صاف کرتے رہے اور پھر بھی دعویدار ہیں کہ وہ جمہوری اور سیاسی راہنماء ہیں۔ اس ملک میں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں آئین چاہیے یا آمریت، اس کے بغیر یہاں معاشی استحکام آئے گا نہ جمہوریت مضبوط ہوگی۔
ان دنوں بھی ملک میں ایک نظام ہے، شہباز شریف وزیر اعظم ہیں، جن کا سنہرا قول ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا ہیں، اسی تارے کے سبب آج ان کے بھائی سیاسی راہوں میں اجنبی بن کر گلیوں میں پھر رہے ہیں۔ نواز شریف نے وفاق میں چوبیس اکتوبر 1990ء کے انتخابات کے بعد پہلی مرتبہ اقتدار سنبھالا تھا۔ اس وقت ملک اقتصادی بحران کی زد میں تھا کیونکہ امریکا نے جوہری پروگرام کی وجہ سے اس پر پریسلر ترمیم کے تحت معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں اور ہماری تمام امداد معطل تھی۔ افغانستان کے حالات تب بھی آج سے مختلف نہیں تھے، صدام حسین کے کویت پر قبضے کے بعد خلیجی جنگ کے منڈلاتے ہوئے سائے تھے اور کشمیر اور خالصتان کی شورش کے نتیجے میں بھارت کے ساتھ تنائو کی وجہ سے پاکستان کے خارجہ تعلقات بھی خطرناک صورت حال سے دوچار تھے۔ داخلی محاذ پر حزب اختلاف 1990ء کے عام انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر علانیہ کہہ رہی تھی کہ وہ قومی اسمبلی کو نہیں چلنے دے گی اس وقت بھی وزیر اعظم کو ’’اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ‘‘ قرار دیا گیا کہ انہیں بغیر عوامی حمایت کے مسند اقتدار پر بٹھا دیا گیا ہے۔ تینتیس سال پہلے جہاں ہمارا ملک تھا آج بھی وہیں کھڑا ہے اس وقت بھی’وزیر اعظم نواز شریف کا ہنی مون شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گیا تھا اس وقت انہوں نے بے نظیر بھٹو کی طرف بھی امن کا ہاتھ بڑھایا ہے جن کی حکومت ان کی وجہ ہی بیس ماہ اقتدار میں رہنے کے بعد برطرف کر دی گئی تھی‘، اس وقت کے سیاسی ماحول میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف آنکھ کا تارا ہیں، اور بے نظیر بھٹو پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا، پھر دو تین سال کے بعد حالات پلٹ گئے، وہی بحث کہ دس کا نوٹ اوپر رکھا جائے یا بیس کا، نواز شریف بر طرف کر دیے گئے اور بے نظیر بھٹو واپس اقتدار میں آگئیں، تین سال کی مدت والے تب بھی توسیع مانگ رہے تھے، انکار پر جمہوریت کے لیے تاریک راہوں کا سفر ختم نہ ہونے دیا گیا اسی کھیل نے ہمارامعاشی اور سیاسی استحکام کا تصور بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ شہباز شریف کے لیے ماضی کے حوالے سے سبق ہے؟ پہلا، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جھگڑے سے گریز کریں۔ دوسرا، اپوزیشن کو کچھ جگہ دیں اور تیسرا، پڑوسیوں یا دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ تنازعات کو ہوا دیے بغیر معیشت پر توجہ دیں اور جذباتیت کو ایک طرف رکھیں۔