ارباب اختیار موثر فیصلے کریں

337

یہ وطن عزیز کا المیہ رہا ہے کہ کبھی بھی برسر اقتدار آنے والی جماعتوں کی جانب سے ریاستی اداروں میں اصلاحات کی کوشش نہیں کی گئی جس کی وجہ سے یہ ادارے روز بروز سیاست کی بھینٹ چڑتے گئے اور آج یہ ادارے قوم کی نظر میں متنازع ہوگئے ہیں۔ قوم کا ان اداروں سے اعتماد ختم ہورہا ہے۔ سلامتی اور انصاف کے یہ ادارے ملک و قوم کا وقار ہوتے ہیں جن کو دنیا کے سامنے مشکوک بنا دیا گیا ہے۔ یہ ادارے ملک و قوم کی سلامتی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں جن کو کمزور کرنے کی ہر دور میں سازش کی گئی۔ ساتھ ہی یہ بھی المیہ رہا کہ ان اداروں کے چند لوگوں کی وجہ سے انصاف اور سلامتی کے ادارے متنازع بنتے چلے گئے اور جرنیل اور ججوں کا منصب سیاست کی نذر ہوتا چلا گیا۔ بد قسمتی سے آج یہ ادارے قوم کے لیے مایوسی کا سبب بن گئے ہیں۔ قوم اس ملک کی تباہی کا ذمے دار سیاسی جماعتوں سے زیادہ سلامتی اور انصاف کے اداروں کو سمجھ رہی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھے ججوں کی جانب سے ملک کے طاقتور ادارے پر جو الزامات عائد کیے گئے ہیں یقینا ان کی غیر جانبدار شفاف تحقیقات ہونا بہت ضروری ہے، جس پر عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کی جانب سے ازخود نوٹس لے لیا گیا ہے جس کی سربراہی چیف جسٹس خود کر رہے ہیں اس کیس کی سماعت کا آغاذ کر دیا گیا ہے اور یقینا قوم اُمید رکھتی ہے کہ ان سنگین الزامات کی غیر جانبدار تحقیقات کر کے حقائق کو قوم کے سامنے لایا جائے گا۔ یقینا بھٹو صاحب کے کیس کی طرح برسوں اس قوم کو انصاف کے لیے انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ہم ماضی میں بھی اداروں کے ایک دوسرے پر الزامات کا سامنا کرتے آئے ہیں اور پھر ان الزامات کو قوم کے وسیع تر مفاد میں پس پشت ڈال کر آگے بڑھتے رہے ہیں جس کی وجہ سے اداروں میں خامیاں دیمک کی طرح بڑھتی چلی گئی ہیں۔

مشرف دور کے بعد جس تیزی سے اداروں کو متنازع بنایا گیا جس طرح سے سلامتی اور انصاف کے اداروں کی سر عام تضحیک کی گئی دنیا بھر کے سامنے اپنے ہی اداروں کو بد نام کیا گیا جرنیلوں اور ججوں پر سیاست میں مداخلت کے الزامات عائد کیے گئے۔ ایسے میں اداروں کی جانب سے خاموشی یا پھر ان اداروں کی جانب سے ایک سیاسی جماعت کے خلاف انتقامی کارروائی نے جمہوریت کے ساتھ ساتھ سلامتی اور انصاف کے اداروں کو متنازع بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

بد قسمتی کا عالم یہ ہے کہ گندا ہے پر دھندا ہے کا راگ دونوں جانب سے بجتا چلا گیا کسی بھی جانب سے آئین کو مقدم نہیں سمجھا گیا۔ ۷۵ برسوں میں آئین کے محافظوں نے دھوم سے آئین توڑا تو آئین و قانون بنانے والی پارلیمنٹ نے آئین و قانون کی دھجیاں اُڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، سیاستدان اقتدار کے لیے اور جج جرنیل ریٹائر منٹ کے بعد کی سہولتوں کے لیے ایک دوسرے کی کٹ پتلی بنتے رہے۔ آئین ٹوٹتا رہا قانون سڑکوں پر فروخت ہوتا رہا مفادات کا سلسلہ پارلیمنٹ سے اداروں کی دہلیز تک جاتا رہا عوام مہنگائی بے روزگاری کے طوفان میں ڈوبتے رہے، معصوم بچیوں کی عصمتیں سر عام لُٹتی رہیں، بے گناہ نوجوانوں کا خون کبھی جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں تو کبھی جعلی پولیس مقابلوں کی زینت بنتا رہا، بے روزگاری سے تنگ انصاف نہ ملنے پر خود کشیاں کرتے چلے گئے مگر کسی بھی جانب سے سیدنا عمر فاروقؓ جیسے انصاف کی صدا سنائی نہ دی۔

یہ ملک یقینا اسلام کے نام پر وجود میں آیا ضرور مگر اسلامی قوانین سے اس ملک و قوم کو محروم رکھنے کی سازش کی جاتی رہی، ملک میں سود کا نظام قائم رکھا گیا، شریعت کی دھجیاں اُڑا دی گئیں مگر کسی ایک جانب سے موثر آواز حق بلند نہیں کی گئی۔ جماعت اسلامی ایک واحد جماعت رہی جس نے اپنی حیثیت میں شریعت کے نفاذ سود کے خاتمے پر آواز اُٹھائی مگر اس آواز کو زور پکڑنے نہیں دیا گیا یہی اس ملک و قوم کی بد بختی رہی ہے کہ کبھی بھی وطن عزیز کو ترقی و خوشحالی نصیب نہیں ہوسکی آج ملک کو سنگین بحران کا سامنا ہے۔ سلامتی و انصاف کے ادارواں کو مشکوک بنا دیا گیا سیاست ذاتی مفادات سیاسی انتقام مخالفین کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنے اور سر عام ایک دوسرے کی ہتک تک محدود رہ گئی ہے جس نے ملک اور اس کے اداروں کو کمزور بنا دیا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سلامتی و انصاف کے ادارے آئین میں رہتے ہوئے اپنے فرائض کو سیاست سے بالا رکھتے ہوئے انجام دیں۔ اپنے اوپر عائد الزامات کا سامنا کریں۔ حقائق کو قوم کے سامنے لایا جائے، سزا کا ایسا معیار قائم کیا جائے جس میں منصب کا کوئی لحاظ نہ ہو۔

اس ملک کی سلامتی اور اس ملک کے اداروں کے ساتھ کھیلنے والوں کو سر عام سزا دی جائے۔ سیاستدانوں کا احتساب کیا جائے کیوں کہ اقتدار تک پہنچنے کے لیے یہ بڑے بڑے عوامی اجتماع کرتے ہیں تو پھر ان کے فیصلے بند کمروں میں کیوں؟ اگر آج بھی ہم ایک دوسرے کی خامیوں کو نظر انداز کرتے رہے ان پر پردہ ڈالتے رہے تو یہ قوم کبھی ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن نہیں ہوسکے گی۔